Maktaba Wahhabi

237 - 534
امام ابن القیم رحمہ اللہ " نهی رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم عن بيعتين في بيعة" کا مصداق نقد اور ادھار کو قرار دینے والوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں : "و أبعد کل البعد من حمل الحديث علی البيع بمائة مؤجلة و خمسين حالة و ليس ههنا ربا ولا جهالة و غرر ولا قمار ولا شئ من المفاسد فإنه خيره بين أي ثمنين شاء".{ FR 202 }[1] یعنی یہ حقیقت سے بہت دور کی بات ہے جس نے بھی اس حدیث " نهی رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم عن بيعتين في بيعة" کو نقد و ادھار بیع کی ممانعت پر محمول کیا ہے۔یعنی ادھار ۱۰۰ میں دیتا ہے اور نقد ۵۰ میں دیتا ہے۔ اسلئے کہ اس (نقد و ادھار )میں نہ سود ہے نہ قیمت کا ابہام ہے نہ دھوکہ نہ کوئی جوا اور نہ ہی کوئی خرابی، بلکہ اس میں بائع نے مشتری کو اختیار دیا ہے کہ جس قیمت پر چاہو خرید لو۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام ابن القیم رحمہ اللہ بھی بیع عینہ ہی کو اسکا مصداق بناتے ہیں۔ نوٹ:موجودہ اسلامی بینکوں میں اجارہ کے غلط و ناجائز ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں بھی ایک بیع میں دو بیع لازم آتی ہے ۔جس طرح کہ مرابحہ ،اجارہ کے بارے میں معلومات رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہے۔[2] ثانیا: ان ائمہ کرام کی توجیہات کو ابو داؤد کی روایت نےمزید واضح کر دیا ہے۔ بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ جس بیع میں نقد و ادھار میں سے کوئی ایک معاملہ طے نہ ہو سکا ہو۔ اسکا شرعا حکم کیا ہے؟اسکو برقرار رکھا جائے یا نہیں؟ ۔حدیث ملاحظہ فرمائیے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "من باع بيعتين في بيعة، فله أوكسهما أو الربا" [3] یعنی:جس نے بیچ دیا ایک بیع کو دو سودوں کے ساتھ یا تو وہ کم قیمت لے ورنہ وہ سود ہو گا ۔ الحدیث يفسر بعضه بعضا بعض روایت بعض کی وضاحت کرتی ہیں کے اصول کے تحت، اس روایت پر غور کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہےکہ مذکورہ روایت کو صرف نقد و ادھار کے ساتھ خاص
Flag Counter