Maktaba Wahhabi

246 - 534
کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا :’’ اکثر علماء کے نزدیک یہ جائز ہے اس فرمان الہی کی روسے: } يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ ۭ وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ ۠ { ( البقرہ : 282 ) ’’ اے ایمان والو جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقررہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے‘‘۔ اللہ تعالی نے یہاں یہ شرط نہیں لگائی کہ یہ قرض کا معاملہ بس موجودہ قیمت ہی کے ساتھ ہو۔ اسی طرح یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے بھی جائز قرار پاتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے اور مدینہ والے پھلوں میں ایک ، دو سال تک بیع سلم کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "من أسلف في تمر فليسلف في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم" ’’ جو شخص پھلوں میں بیع سلف کرے تو اسے چاہیے کہ متعین پیمانہ، متعین وزن اور متعین مدت کے ساتھ بیع سلف کرے‘‘۔[1] اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی موجودہ وقت کی قید نہیں لگائی ۔ نیز امام حاکم اور بیہقی نے اسناد جید سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ ایک لشکر کو تیار کریں اس وقت اونٹ کم پڑ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ایک اونٹ کے بدلے دو اونٹ خرید لیں صدقہ کے اونٹ آنے تک ۔ اس معنی میں اور بھی دلائل بہت ہیں اسلئے کہ تجارت کا معاملہ ادھار میں صحیح نہیں رہ سکتا الا یہ کہ تاجر مقررہ قیمت سے زیادہ لے اسلئے کہ وہ سارے نقصانات کا پابند ہوتا ہے اور اسلئے کہ بائع قیمت کی زیادتی کے ذریعے ہی فائدہ حاصل کرتا ہے اورخریدار کو چھوٹ میں اور ادائیگی میں آسانی کا فائدہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک تو یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اپنی ضرورت کی چیز یکمشت خرید لے اگر ادھار میں زیادتی ممنوع ہوتی تو اس سے کئی نقصانات جنم لیتے ۔کیونکہ شریعت کاملہ مصالح کے حصول اور ان کی تکمیل کیلئے اور مفاسد کے ازالے اور ان کو کم کرنے کیلئے آئی ہے ۔اور میں نہیں جانتا کہ اس مسئلے میں کسی نے
Flag Counter