Maktaba Wahhabi

250 - 534
الأولیٰ: أن يکون وسيطا للتبادل، الثانية: أن يکون مقياسا للقيم، الثالثة: أن يکون مستودعًا للثروة‘‘۔[1] ’’زرکی تین خصوصیات ہیں جس مادہ میں بھی وہ پائی جائیں ، وہ زر شمار ہو گا : ذریعۂ مبادلہ ہو قیمتوں کا پیمانہ ہو دولت محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو بلاشبہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں مالیاتی لین دین سونے، چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اورسونے ،چاندی کی زر ی صلاحیت بھی مسلّمہ ہے، لیکن شریعت نے زر کے لئے سونے ،چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی بلکہ اس معاملے میں بڑی وسعت رکھی ہے۔مشہور مؤرخ احمد بن یحییٰ بلاذری کے بقول سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کر لیا تھا مگر اس خدشے سے اِرادہ ترک کر دیا کہ اس طرح تو اونٹ ہی ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیاہے: ’’هممت أن أجعل الدراهم من جلود الإبل فقيل له إذا لابعير فأمسک‘‘۔[2]’’میں نے اونٹوں کے چمڑوں سے درہم بنانے کا ارادہ کیا۔ ان سے کہا گیا: تب تو اونٹ ختم ہوجائیں گے تو اس پراُنہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ‘‘۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لو أن الناس أجازوا بينهم الجلود حتّٰی تکون لها سکة وعين لکرهتها أن تُباع بالذهب والورق نظرة‘‘[3] ’’اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائیں تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو اُدھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا ‘‘۔ یعنی اگر چمڑا بحیثیت زر رائج ہو جائے تو اس پر بھی وہی احکام جاری ہو ں گے جو درہم ودینار پر ہوتے
Flag Counter