Maktaba Wahhabi

260 - 534
دوسرے قول کے مطابق بنواُمیہ کے دور میں ہوا۔جو صورت بھی ہو، تاہم آخر کارجس شرعی درہم پراجماع ہوا وہ وہی ہے جو عبد الملک بن مروان کے دور میں بنایاگیا۔لیکن فقہاء اور مؤرخین نے ثابت کیا ہے کہ یہ درہم اپنی اصلی حالت پر نہیں رہا تھا بلکہ مختلف شہروں میں اس کے وزن اور معیار میں کافی تبدیلی آتی رہی ہے۔جدید تحقیق کی روشنی میں اس درہم کا وزن975.2 گرام چاندی ہے۔[1] —اسی طرح دینار رومیوں کی کرنسی تھی جو براستہ شام یہاں آئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باقی رکھا حتی کہ خلفائے راشدین اور سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی رومی دینار کو ہی کرنسی کی حیثیت حاصل رہی۔ جب مسند ِخلافت عبدالملک بن مروان کے پاس آئی تو اُنہوں نے زمانۂ جاہلیت کے دینار کے مطابق ایک دینار جاری کیا جس کو ’’شرعی دینار‘‘ کہاجاتا ہے، کیونکہ اس کا وزن اس دینار کے برابر تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا تھا۔[2] —معمولی اشیاء کے لین دین میں سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں یعنی تانبے وغیرہ سے بنے سکے جنہیں فُلُوْس کہاجاتا ہے، بھی استعمال ہوتے ۔ جیسا کہ حدیث میں دیوالیہ شخص کے متعلق اَلْمُفْلِس کالفظ آتا ہے۔ شارحِ بخاری حافظ ابن حجر اپنی مایہ ناز تالیف ’’فتح الباری‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’شرعی معنوں میں ’’مفلس‘‘وہ شخص ہے جس کے قرضے اس کے پاس موجود مال سے زیادہ ہوجائیں ۔ اسے مفلس اس لئے کہا جاتا ہے کہ پہلے درہم و دینار کا مالک تھا لیکن اب فلوس پر آگیا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف معمولی مال (فلوس) کا مالک رہ گیا ہے۔ یا ایسے شخص کو مفلس اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ اس کو فلوس جیسی معمولی چیز میں ہی تصرف کا حق ہو تا ہے، کیونکہ وہ فلوس کے ذریعے معمولی اشیا کا لین دین ہی کرتے تھے‘‘۔ 3 حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں بھی فُلوس کا تذکرہ موجود ہے : ’’فَأَمَرَهاَ أَنْ تَشْتَرِیَ بهِ فُلُوسًا‘‘ 4 ’’اُنہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ اس کے بدلے ’’فلوس‘‘خرید لو‘‘۔
Flag Counter