Maktaba Wahhabi

286 - 534
ویلیو یونٹس (Fixed Value Units)پر مشتمل مجوزہ حل جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے فہیم خان کے گولڈ اکاؤنٹس سے مختلف نہیں ۔[1] نیز اس مضمون میں ان تما م تفصیلات کا احاطہ مقصود نہیں ۔ سپریم کورٹ میں حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب کا بیان اور اس سے پیدا شدہ غلط فہمی سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ)میں حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے بطور معاون جو بیان دیا تھا، اس کے متعلق بعض اخبارات کےرپوٹروں نے بے احتیاطی کی بنا پر غلط سلط رپورٹنگ کی جس کی بناپر بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ حافظ صاحب چونکہ افراطِ زر کی واقعاتی صورت تسلیم کررہے ہیں، اس لئے ان کا موقف اشاریہ بندی (indexation)کی حمایت میں ہے ۔ جہاں تک اس تاثر کا تعلق ہے اسی کی تردید ’’محدث‘‘(اگست 99ء )میں واضح طور پر کردی گئی ۔ علاوہ ازیں مدنی صاحب کے داخل کردہ تحریری بیان کا مطالعہ بھی اسی سلسلے کی صورتِ حال کو واضح کرتا ہے۔میں یہاں صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اخبارات کے رپوٹرز کی غلط فہمی سے قطع نظر کہ ان کا مبلغ علم معروف ہے، بعض اہلِ علم کو جو غلط فہمی ہوئی ہے ، اس کا حقیقی سبب کیا ہے؟ اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے کاغذی کرنسی کی شرعی حیثیت کے ضمن میں جو موقف اختیار کیا ہے کہ کاغذ ی کرنسی ثمن حقیقی نہیں بلکہ کاغذی کرنسی کی (Commodity)کا قائم مقام /بدل ہےاور یہ واضح ہے کہ یہ رائے اس رائے سے مختلف ہے جو مولانا گوہر الرحمن،انجینئر سلیم اللہ یا دیگر حضرات نے اختیار کی ہے یا جسے راقم الحروف نے گزشتہ سطور میں راجح رائے قرار دیا ہے ۔ بہر کیف حافظ صاحب نے مقام /بدل مقام کے موقف کو راجح تر قرار دے کر گفتگو کا آغاز کیاتھا۔اب ہمارے ہاں ماحول یہ بن گیا ہے کہ ان تمام حضرات کو جو کاغذی کرنسی کو ثمنِ حقیقی قرار نہیں دیتے بلکہ دیگر آراء میں سے کسی رائے کے حامل ہیں ، انہیں اشاریہ بندی کا حمایتی سمجھ لیاجاتا ہے۔ اس بات کو اگر دوسرے زاویہ سے لیا جائے تو صورتحال یوں بنتی ہے کہ کاغذی کرنسی کو ثمنِ حقیقی قرار دینے والے حضرات… کم از کم پاکستا ن کی حد تک …افراطِ زر کےمسئلے کوبطورِ مسئلہ حل کرنےمیں کوئی
Flag Counter