Maktaba Wahhabi

29 - 534
وتاب سے دنیا میں موجود رہا، جبکہ کوئی بھی نظام معیشت ڈیڑھ سو سال سے زائد عرصہ تک زندہ نہ ر ہ سکا، حتی کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنے تمام تر جدید وسائل ، اثرورسوخ ، پرکشش دعووں کے باوجود ایک صدی کا مکمل عرصہ بھی طے نہ کرپایا اور اپنی موت آپ مرنے لگا ہے۔ یہی وہ نظام تھا جس نے عرب کے بدوؤں کو دنیا کی سپر پاور بنادیا، غربت کا ایسا خاتمہ کیا کہ ڈھونڈنے سے بھی کوئی غریب نہ ملتا ، جس کا Debt to GDP بالکل صفر تھا ، جس میں Unemployment Rate صفر تھا، اس سنہری دور کی چند مثالیں پیش نظر ہیں: (1) امیر المومنین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی نظام معیشت کے فیوض وبرکات اس طرح عام ہوئے کہ سيدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ یمن کے صدقات جمع کرنے کیلئے مقرر ہوئےوہاں انہوں نے بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد "توخذ من أغنياءهم وترد علی فقراءهم " کہ زکاۃ ان کے اصحاب ثروت سے وصول کی جائے گی اور ان کے محتاج افراد کی طرف لوٹا دی جائے گی ‘‘کی تعمیل کی۔ تمام ضرورت مندوں میں تقسیم کے بعد بھی ایک تہائی مال بچ رہاوہ انہوں نے دربار امارت میں پیش کردیا تو امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اسے وصول کرنے سے انکار کردیااور فرمایا:" لم أبعثک جابياً ولا آخذاً جزيه ولٰکن بعثتک لتأ خذ من أغنيا ء الناس فتردّ علیٰ فقراءهم"میں نے تمہیں مال اکٹھا کرنے یا جزیہ وصول کرنے نہیں بھیجا تھا میں نے تمہیں اس کام پر مقرر کیا تھا کہ ان کے مالدار لوگوں سے وصول کرو اور ان محتاج اورفقیرلوگوں تک پہنچا دو،سيدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا "ما بعثت اليک بشیءوأنا أجدأحداًيأخذه منی"میں نے یہ مال آپ کی طرف اس وقت بھیجا کہ مجھے یہاں کوئی وصول کرنے والا نہیں ملا۔ اس سے اگلےسال سیدنا معاذبن جبل  نے صدقات کی مد میں موصول ہونے والے مال کا نصف بیت المال کے لئے ارسال کر دیا تو امیر المومنین عمر  نے پھر وہی بات کی اور سیدنا معاذبن جبل نے وہی جواب دیاتیسرے سال یہ ہوا کہ سیدنا معاذبن جبل کو یمن میں صدقہ لینے والا کوئی نہ ملااور انہوں نے تمام جمع شدہ مال دارالخلافہ مدینۃالرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھجوا دیا، خلیفہ ثانی عمرالفاروق رضی اللہ عنہ نے پھرکہا کہ میں نے تمہیں مال اکٹھا کرنے یا جزیہ وصول کرنے کے لئے متعین نہیں کیا تھااور
Flag Counter