Maktaba Wahhabi

293 - 534
شکوک شبہات سے بچا جا سکتا ہے۔ کیا تھوڑے قرضے کو بھی لکھا جائے ؟ ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑی خرابی در آئی ہے کہ لوگ کم قرض کو لکھتے ہی نہیں کہتے ہیں کہ بھائی چند سو ہی تو ہیں لکھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یا پھر اس وجہ سے بھی نہیں لکھتے کہ جس کو قرض دے رہے ہیں وہ بڑا نیک یا قریبی رشتہ دار ہے دینے والے کو اس پر اندھا اعتماد ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی اعتماد بعد میں بداعتمادی میں بدل جاتا ہے۔ سیکڑوں لوگ اس وجہ سے رو رہے ہیں کہ انہوں نے کسی شخص کو محض اعتماد کی بناپر قرض دیا اور کوئی لکھت پڑھت نہیں کی۔ مگر اگر شرعی اصولوں کو دیکھا جائے تو قرض کے لکھنے کے جو احکامات ہیں یہ سب سے پہلے صحابہ کرام پر نازل ہوئے اور قرآن کریم کے سب سے پہلے مخاطب وہی تھے۔ اور یہ لکھنے کا حکم سب سے پہلے انہی صحابہ کو دیا گیا تھا۔ تو کیا کوئی شخص صحابہ کے اعتماد اور امانت میں شک کرسکتا ہے ؟ ( حاشا وکلا ) لیکن اس کے باوجود بھی لکھنے کا کہا گیا کیونکہ شیطان ابن آدم کے وجود میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ ہم نے جب شرعی اصول کو چھوڑ کر اعتمادوں کی فضا میں بسیرا کیا تو وہاں سے ہمارے اعتمادوں کو ٹھیس پہنچنے لگی۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ خاندان بچھڑ گئے ، رشتہ داریاں ختم ہوگئیں ، دوستیاں دشمنیوں میں بدل گئیں ، جس کا سبب یہی اندھا اعتماد تھا۔ اور یہ ضروری نہیں کہ لکھی صرف بڑی رقم جائے بلکہ قرآن مجید نے تو حکم دیا کہ : {وَلَا تَسْــَٔـــمُوْٓا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِيْرًا اَوْ كَبِيْرًا اِلٰٓى اَجَلِهٖ ۭ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَاَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدْنٰٓى اَلَّا تَرْتَابُوْٓا } [البقرة: 282] ’’ اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی ہے شک وشبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے‘‘۔ (2)قرض کے لین دین میں گواہ بنانا شواہد اور گواہ بنانا بھی مستحب عمل ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
Flag Counter