Maktaba Wahhabi

306 - 534
دے، اور کسی قسم کے نقصان کی صورت میں ایک مخصوص رقم ادا کرے، اور اس ضمانت دینے کے بدلہ معاوضہ طلب کرے۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ انشورنس جدید مسائل میں سے ہے اس لئے متقدمین کی کتابوں میں اس مسئلہ کا حکم مذکور نہیں ، غالباً سب سے پہلے جس عالمِ دین نے اسے اس کی ابتدائی شکل میں تحریر کیا ہے وہ علامہ ابن عابدین ہیں جنھوں نے اپنی کتاب ’’حاشیہ رد المختار ‘‘ میں ایک مسئلہ ذکر کیا جو کہ انشورنس سے مطابقت رکھتا ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے دور میں تاجر ایک معاہدہ کرتے تھے جسے ’’سوکرہ‘‘ کہا جاتا تھا ، وہ یہ ہے کہ جب مسلمان تاجر دیار کفر سے دیار اسلام کی طرف واپس ہوتے تو ایک کافر سے کشتی کرائے پر لیتے اسے کرایہ ادا کرتے اور مزید رقم بھی دیتے اور اس سے یہ معاہدہ کرتے کہ اگر راستہ میں ان کا مال غرق ہوگیا یا ضائع ہوگیا ، یا چوری ہوگیا تو وہ انہیں ان کے مال کے بقدر قیمت ادا کرے گا، اس کافر کا ایک وکیل دیارِاسلام میں ہوتا تھا جو نقصان کی صورت میں مسلمانوں کو رقم کی ادائیگی کرتا تھا۔اس معاہدہ کے بارے میں علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’یہ معاہدہ جائز نہیں ، کیونکہ اس میں ایسی چیز اپنے لئے لازم کرلی گئی ہے جس کا وہ ذمہ دار نہیں ہے‘‘۔[1] بالکل یہی معاملہ انشورنس کا بھی ہے، پہلے ہم انشورنس کی تعریف سمجھ لیں تاکہ اس کاحکم سمجھنے میں آسانی ہو۔ انشورنس اس کی کئی اقسام ہیں لیکن جو قسم معروف ہے اور انشورنس کمپنیوں کے ذریعہ جو انشورنس کیا جاتا ہے اسے تجارتی بیمہ پالیسی (commercial insurance) کہتے ہیں، اس کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے: ’’ایسا معاہدہ (agreement) جو لین دین (تجارتی ) پر مشتمل ہو، اس میں ایک طرف صارف (costumer) ہے جو کہ اقساط (installment ) ادا کرتا ہے اور دوسری طرف کوئی ایک شخص یا کوئی کمپنی ہوسکتی ہے، اس معاہدہ میں یہ طے کیا جائے کہ صارف ایک مقررہ مدت تک کچھ خاص رقم قسط کی صورت میں یا ایک ہی دفعہ میں اس کمپنی کو ادا کرے گا ، اس کے
Flag Counter