Maktaba Wahhabi

319 - 534
شریعت اسلامی کا یہ اصول ہے کہ جو شخص بھی تعاون کی نیت سے کوئی ادائیگی کرتا ہے جسے ہم صدقہ یا خیرات یا کوئی اور نام دے دیں ، تعاون کی صورت میں ادائیگی کے بعد وہ مال اس کی ملکیت سے نکل جاتا ہے ، وہ اس مال کا مالک نہیں رہتا ، چہ جائے کہ وہ اس مال کو اپنا مال سمجھ کر اس کی واپسی کا مطالبہ کرے یا اس پر نفع طلب کرے، اور اس کو شریعت میں بہت برا عمل قرار دیا گیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’اپنے دئیے گئے ہدیہ میں لوٹنے والا (یعنی اس کو واپس طلب کرنے والا) ایسے ہے جیسے ایک کتا ہو جو قے کرے اور پھر اس کو چاٹ لے۔‘‘[1] جبکہ تکافل میں یہ صورت واضح ہے کہ مدت پوری ہونے کے بعد اور کسی قسم کا نقصان نہ ہونے کی صورت میں تکافل میں اشتراک کرنے والا شخص اپنا مال واپس لے سکتا ہے ، اس شرط کے ہوتے ہوئے تکافل کو تعاون کہنا کسی صورت صحیح نہیں۔ تعاون ہمیشہ بغیر کسی عوض کے کیا جاتا ہے ، ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص کسی کو ہدیہ دے اور اس کے بدلہ کوئی مطالبہ کرے ، اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ لین دین ہوجائے گا اور اس کا حکم تعاون کا نہیں رہے گا بلکہ وہ تجارت کے حکم میں آئے گا ، امام کاسانی رحمہ اللہ بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:’’اگر وہ ہدیہ دیتے وقت عوض (بدلہ )کی شرط لگادے یعنی وہ یوں کہے کہ : میں تمھیں یہ چیز تحفہ میں دیتا ہوں اس شرط پر کہ تم مجھے وہ کپڑا دو گے‘‘، تو ایسے معاہدہ کی نوعیت میں اختلاف ہے ، ہمارے تینوں اصحاب (امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد ) یہی کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ہے تو ہدیہ کا لیکن اس کاحکم تجارت کا ہوگا، اور کبھی وہ اس طرح بھی کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ابتداء میں تو ہدیہ ہے لیکن آخر میں آکر یہ تجارت میں بدل گیا ہے‘‘۔[2] تکافل کے نظام میں بھی عوض کی شرط موجود ہے ، جب کوئی شخص تکافل میں اشتراک کرتا ہے تو معاہدہ میں یہ شرط موجود ہوتی ہے کہ اس رقم کے بدلہ میں اس کی کسی مخصوص چیز میں نقصان ہونے پر تلافی کی
Flag Counter