Maktaba Wahhabi

378 - 534
کے الفاظ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں: ترجمہ: رسول اللہ نے فرمایا:’’اگر تم بلامعاوضہ ہی اپنے بھائیوں کوزمین دے دیا کرو تو یہ اس سے اچھا ہے کہ تم اس پر [بٹائی یاکرایہ]وصول کیا کرو‘‘۔ اس عدمِ جواز کی توجیہ میں علماء ایک اور روایت ذکر کرتے ہیں زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج کومعاف فرمائےواللہ میں اس حدیث کو ان سے بہتر جانتا ہوں،واقعہ یہ ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س دو انصاری لڑتے ہوئے آئے تو آپ نے فرمایاکہ: ’’إن كان هذا شأنكم فلا تكروا المزارع‘‘[1] اگر تمہارا یہی حال ہے توزمین ٹھیکہ پر نہ دیا کرو۔اس روایت میں کراء الارض سے ممانعت کا سبب مذکور ہےاور اسی طرح کی ممانعت تو جیہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے منع نہیں فرمایا البتہ یہ کہا ہے کہ آپس میں نر می کا برتاؤکیا کرو۔[2] مندرجہ بالا توجیہات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سرے سے ہی مزارعت کی ممانعت وارد نہیں ہوئی بلکہ کچھ غلط اسباب اور فاسد شروط کی بناء پر نبی الرحمہ علیہ الصلاۃوالسلام نے اس سے منع کیا ہےاگر وہ نہ ہوں تو مزارعت جیسے معاہدوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (2) مزارعت کا اجرت پر قیاس اسکا جواب قائلین اس طرح دیتے ہیں کہ مزارعت کا اجرت پر قیاس نہیں بلکہ مزارعت کا مضاربت پر قیاس کیا جانا چاہئےجو إجماع امت سے جائز ہے مزید تفصیل امام ابن قیّم کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ:انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ معاہدے اجارہ کی جنس سے ہیں،کیونکہ اس میں [عوض]اجرت کے بدلے[معوض]عمل ہےاور اجارہ میں عامل کا عمل اور اسکا عوض یعنی اجرت معلوم ہونا ضروری ہے پھر جب انہوں نے اس معاہدے میں عمل اور منافع غیر معلوم پائے تو کہا یہ خلاف قیاس ہے ،یہی انکی غلطی ہے،کیونکہ یہ معاہدے مشارکت کی جنس سے ہیں نہ کہ معاوضتِ محض پر مشتمل ہیں جن میں عمل اور اجرت کا
Flag Counter