Maktaba Wahhabi

381 - 534
نئے خریدارسے کچھ عوض طلب کریں تاکہ ان کا جو ذریعہ معاش ختم ہو گیا ہےاس کی جگہ کوئی اور ذریعہ اختیار کر سکیں کیونکہ زمین کے جانے سے اگر انہیں کوئی ضررپہنچا ہے تو اس میں مالک کی کوئی ذمہ داری نہیں اور کیونکہ ان کی شراکت مزارعت میں تھی ملکیتِ زمین میں نہیں،اور نہ ہی مزارعین زمین خریدنے کیلئے اس فروخت کی منسوخی کا مطالبہ کر سکتے ہیں مگر تعاون باہمی اور اچھے اخلاق کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر صاحب زمین اپنی ملکیت فروخت کرنا چاہے تو اپنے مزارعین سے بھی مشورہ کرے وہ خریدنا چاہیں تو ان سے تعاون کرے اور اگر خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے اور کوئی دوسرا روزگار بھی نہیں رکھتے تو مالی طور پر بھی ان کی معاونت کرے۔ معاہدۂ مزارعت کو عدل پر قائم رکھنے کیلئے علماء نے کچھ شرائط بیان کی ہیں،جن کے اشتراط سےنہ زمیندارکا استحصال ممکن ہو پائے گا اور نہ ہی مزارع کی کسی قسم کی حق تلفی ہوگی وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں : (1) مزارع اور زمیندار دونوں عاقل بالغ[مکلف]اور مکمل اہلیت کے حامل ہوں، زمیندار زمین کا مالک ہواور مزارع زراعت کر سکتا ہو۔ (2) زمین قابل کاشت ہو تاکہ کاشت کارمحنت کرکے پیداوار میں حصہ دار ہو سکے،مساقاۃ میں پھل دار درختوں کا ہونا ضروری ہے۔ (3) زراعت کی جانے والی فصل اورطریقہ زراعت معلوم ہوں،کیونکہ کچھ فصلیں اور طریقہ کاشت آمدن اور منافع پراثرانداز ہوتے ہیں۔جو بعد میں اختلاف کا سبب بنتے ہیں۔ (4) زراعت کیلئے بیج اورآلات پر دونوں جس طرح متفق ہوں وہی درست ہے ،بس کسی قسم کا بھی ضرروغررنہ پایا جائے۔ (5) پیداوار کی تقسیم فیصدی یاچوتھائی،تہائی،نصف کے طور پر اور تقسیم کا طریقہ کارطے شدہ ہو،مکمل پیداوار سےدونوں کے حصوں کی تقسیم ہو نہ کہ زمین یا فصل کے اعتبار سے حصے الگ الگ کئے جائیں۔مثلاً زمیندار یہ کہے کہ پانی کے قریب والی فصل میری ہوگی اور فلاں قطع زمین کی کاشتکار کے حصہ میں آئے گی یاگندم کی فصل کاشت کار لے اور چاول کی زمیندار لے، اس طرح تقسیم سے احادیث میں منع کیا گیا ہے،کیونکہ ممکن ہےجس قطع کی پیداوار زمیندار چاہ رہا ہو وہاں پیداور اچھی ہوتی ہو اور کاشت کار
Flag Counter