Maktaba Wahhabi

402 - 534
مخابرۃ ومزابنہ ومحاقلۃ: یہ اقسام بھی ربا(سود) کے سدباب کےلئے حرام کی گئی ہیں۔ المخابرۃ: یعنی کھیت کی پیداوار سے اپنے لئے کچھ حصہ خاص کر لینا۔مثلا زمین کا مالک کسان سے کہے کہ زمین کے آخری حصہ میں جو کاشت کروگے وہ تمھارا ہوگا تو یہاں ربا کا دروازہ کھل رہا ہے کیونکہ وہاں زراعت کا ہونا یا نا ہونا یقینی نہیں ،ہاں اگر پوری زمین میں سے فیصد کے ساتھ تقسیم ہو کہ مکمل زراعت میں سے 5 فیصد تمہارا ہوگا تو یہ جائز ہے۔ مزابنہ سے مراد یہ ہے کہ مثلا درخت میں لگی ہوئی کچی کھجور کو پکی ہوئی کھجور سے بیچنا۔ محاقلہ :یعنی کھیت میں لگے ہوئے کچے اناج کو پکے ہوئے اناج سے خریدنا۔وغیرہ امام ابن کثیررحمہ اللہ رقمطراز ہیں :’’خریدوفروخت کے معاملے کو اور ان جیسے دیگر معاملات کو اس وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہے تاکہ سود کا مادہ ختم ہو اور اس کی جڑ کٹ جائے کیونکہ سوکھنے سے پہلے دونوں چیزوں میں ہم وزنی مما ثلث اور برابری معلوم نہیں ہے اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے ’’الجهل بالمماثلة كحقيقة المفاضلة‘‘۔ ترجمہ:’’ دو چیزوں میں برابری و مماثلت معلوم نہ ہونا ہی سود کی حقیقت ہے‘‘۔[1] سود کو منافع اور فائدہ سے تشبیہ دینا : حیلوں میں سے یہ بھی ہے کہ سود لینے والے لوگ اسے فائدے ، نفع سے تعبیر کرتے ہیں۔ تاکہ جو قرآن وحدیث کے نصوص میں سود سے متعلق وعیدیں ہیں ان سے بچا جا سکے جبکہ یہ نہایت ہی بچگانہ عمل ہے۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کیا یہ مال اور منافع جو آپ نے لیا کیا اس لئے نہیں لیا کہ آپ نےایک مدت کیلئے قرض دیا اور اب واپسی کے وقت آپ اس پر نفع مانگ رہے ہیں ؟ یہ تو بعینہ ربا ہے آپ اسے جو چاہیں نام دیں ،کیا خنزیر کو اگر بھیڑ بکری کہہ دیا جائے تو وہ حلال ہوجائیگا؟ ہرگز نہیں، اسی طرح کچھ لوگ ایک اور حیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہم کفار کے ممالک میں اپنا مال رکھیں گے پھر ان سے نفع لے کر ان کے ملک کے اقتصاد کو کمزور بنائیں گے۔یہ بھی مضحکہ خیز ہے، آپ کےان ممالک میں مال رکھوانے سے حقیقت میں اُن کا
Flag Counter