Maktaba Wahhabi

467 - 534
جواب: سود لینا اور سود دینا دونوں کا شمار گناہ کبیرہ میں سے ہوتا ہے ، اور دونوں پر اللہ کی لعنت ہے ، سود کے گناہ میں دونوں برابر کے شریک ہیں ، لیکن جہاں تک معاملہ ہے کاروبار کا یا ایسی کمپنی میں ملازمت کا جو سود پر قرض لیتی ہو تو اس حوالہ سے کمپنیوں کی دو اقسام ہیں : (۱) وہ کمپنیاں اور ادارے جن کا کام ہی سودی لین دین ہو ، اور ان کا منافع بھی سود ہی سے حاصل ہوتا ہو ، جیسے بینک، تو ایسی کمپنی کا کاروبار حرام ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی ملازمت بھی حرام ہے۔ (۲) وہ کمپنیاں اور ادارے جن کا کاروبار سودی نہ ہو اور نہ ہی اس میں کسی اور قسم کے حرام کی آمیزش ہو اور جن کا منافع بھی سود سے حاصل نہ ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے منافع میں سے سود ادا کرتے ہوں ، تو ایسی کمپنی کا کاروبار حلال ہے اور اس میں وہ ملازمت جائز ہے جس کا تعلق سودی لین دین کی لکھت پڑھت یا اعداد وشمار جمع کرنے سے نہ ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سود لینے والے کے کاروبار کا خصوصاً تذکرہ کر کے اسے حرام قرار دیا ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے: {اَ لَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبَا لَا يَقُوْمُوْنَ إِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ} ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو‘‘۔[البقرة: 275] اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سود پر قرض لینا جائز ہے ، بلکہ سود پر قرض لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے ، اور اس لعنت میں کمپنی کا مالک اور وہ ارباب اختیار شامل ہیں جو کمپنی کے مالی معاملات میں تصرف واختیار رکھتے ہیں۔ سوال نمبر 3 : اگر بینکوں کے پاس زیور رکھواکر بلاسود قرضہ لیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ (محمد عرفان) جواب :بینکوں سے کسی قسم کا معاملہ کرنا ناجائز اور حرام ہے ، چاہے وہ معاملہ سودی ہو یا غیر سودی ، کیونکہ یہ گناہ پر تعاون ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے: { وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} [المائدة: 2] ’’ گناہ اور زیادتی کے معاملہ میں تعاون نہ کرو‘‘۔ جہاں تک بینک کے علاوہ کسی اور کے پاس زیور رکھوا کر قرض لینے کا تعلق ہے تو وہ جائز ہے ، کیونکہ قرض
Flag Counter