Maktaba Wahhabi

469 - 534
جواب :جائز ہے ، بلکہ اس رقم سے ہونے والے منافع کو آپ ذاتی استعمال میں بھی لاسکتے ہیں کیونکہ کاروبار میں نقصان ہونے کی صورت میں بھی بہر حال قرض کی ادائیگی لازم ہے، تو چونکہ نقصان بھی قرضدار نے برداشت کرنا ہے لہذا منافع کا حقدار بھی وہی ہے ، اور دونوں صورتوں میں (یعنی نفع ہو یا نقصان) قرض خواہ کو اتنی ہی رقم لوٹائی جائیگی جتنی اس نے ادا کی تھی ، کسی بھی قسم کی کمی بیشی کرنا جائز نہیں۔ سوال نمبر 5 : لاعلمی کی بنیاد پر جو منافع اور سود حاصل کیا گیا ہے اس کا کیا کیا جائے؟(راشد علی) جواب: لا علمی کی بنیاد پر اگر سود مل گیا ہے تو اسے فقراء اور مساکین میں بغیر اجر وثواب کی نیت کے صدقہ کردیا جائے۔ سوال نمبر 6 : ایک شخص اپنی بھینس کسی کو ایک سال کے لئے 30000روپے کے عوض سپرد کردیتا ہے کیا پیسے ادا کرنے والے کے لئے اس کا دودھ فروخت کرنا جائز ہوگا؟(نوید ظفر اقبال ) جواب: اس معاملہ کی مکمل وضاحت مطلوب ہوگی کہ یہ معاملہ اجارہ ( کرایہ داری ) کا ہے ، یا قرض کے بدلہ رہن رکھوانے کا؟ اگر یہ معاملہ کرایہ کا ہے کہ کرایہ دار نے تیس ہزار روپے کرایہ کے عوض ایک سال کے لئے بھینس حاصل کی ہے تو اس کے لئے اس سے نفع اٹھانا جائز ہے ، وہ اس کا دودھ بیچ کر نفع حاصل کرسکتا ہے ، اور اگر قرض لے کر بھینس کو بطور رہن کے رکھوایا ہے تو قرض خواہ کے لئے اس صورت میں اس کا دودھ بیچنا جائز ہوگا جب اس بھینس کے چارہ پانی کا بندوبست بھی اس کے سپرد ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "الرهن مركوب ومحلوب" رہن (اگر مویشی ہوتو ) اس پر سواری بھی کی جاسکتی ہے اور اس کا دودھ بھی نکالا جاسکتا ہے[1]۔
Flag Counter