Maktaba Wahhabi

130 - 259
کی وجہ سے ایک ایسی ذہنی کیفیت میں ہوتا ہے کہ وہ سخت ترین فتنے میں بآسانی مبتلا ہوجاتا ہے، اس کے برعکس آخر الذکر (دوسرے شخص) کے حق میں فتنے کا اندیشہ اتنا زیادہ قوی نہیں ہے۔ پس اگر شریعت نے فتنے کے خفیف احتمال کی وجہ سے بھی آخر الذ کر کو قبر کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت کردی ہے تو ظاہر ہے اول الذکر کے معاملے میں ممانعت کس درجہ سخت ہوگی۔ یہ بات ہر اس شخص پر ظاہر ہے جو دین الٰہی میں تفقّہ اور سمجھ رکھتا ہے۔ دینِ الٰہی خالص توحید کا مطالبہ کرتا ہے اور شرک کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ شکل بھی روا نہیں رکھتا۔ (2)۔ قبروں کے پاس دعا کے لیے جانا اور سمجھنا کہ وہاں دعا دوسری جگہوں کی نسبت زیادہ قبول ہوتی ہے، یہ ایک ایسا فعل اور اعتقاد ہے جس کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہیں دی اور نہ ہی اسے صحابہ وتابعین اور مسلمانوں کے ائمہ میں سے کسی نے بیان کیا ہے بلکہ متقدمین علماء وصلحاء میں سے کسی ایک سے بھی یہ بات ثابت نہیں۔ یہ چیز ہمیں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری کے بعد بعض متاخرین کے ہاں ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بارہا قحط میں مبتلا ہوئے۔ بڑے بڑے مصائب انھیں پیش آتے رہے لیکن انھوں نے کبھی نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف رجوع کیوں نہیں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو لے کر میدان میں نکلے اور ان کے واسطے سے دعا کی۔[1] نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پاس ہی موجود تھی مگر وہاں جاکر کوئی دعا نہیں کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ قحط میں انھوں نے قبر نبوی کھول دی تھی، کیونکہ بارش اللہ کی رحمت ہے اور وہ قبر نبوی پر نازل ہونی چاہیے۔ مگر یہ نہیں کیا کہ قبر کے پاس بارش کے لیے دعا یا فریاد کی ہو۔
Flag Counter