مقبولیت میرے ذمے نہیں ہے لیکن جب میرے دل میں دعا ڈال دی جاتی ہے تو قبولیت بھی اس کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ جب اللہ تعالیٰ بندے کو بھوک اورپیاس کی تکلیف سے نکالنا چاہتا ہے تو اس کے دل میں ڈال دیتا ہے کہ کھائے پیے۔ اسی طرح وہ جب بندے کو معاف کرنا چاہتا ہے تو اس کے دل میں توبہ کا خیال پیدا کردیتا ہے۔ چنانچہ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اسے اور معافی مل جاتی ہے۔ اسی طرح جب کسی بندے پر رحمت نازل کرنا اور اسے جنت میں داخل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اہلِ جنت کے عمل آسان کردیتا ہے۔ مشیّت الٰہی کا اقتضا یہی ہے کہ بھلائیاں اپنے قدرتی اسباب کے ساتھ وجود میں آئیں۔ جس طرح اس کا تقاضا ہے کہ جنت میں داخلہ عمل صالح کے ذریعے سے ہو، بچہ نر و مادہ کے اجتماع سے پیدا ہو اور علم، تعلیم سے حاصل ہو۔ بہر حال تمام امور کا مبدا اور ابتدا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان کا تمام ہونا بھی اسی پر موقوف ہے۔ایسا نہیں ہے کہ بندہ پروردگار پر یا اس کے ملکوت پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ خود پروردگار اپنے ملکوت میں تنہا مؤثر ہے۔ وہی اپنے بندے کی دعا کو اس کے حق میں اپنی قضا وقدر کا سبب بنادیتا ہے۔ جیسا کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا آپ کے خیال میں ہماری یہ دوائیں، جھاڑ پھونک اور احتیاطی تدابیر اللہ کی مشیّت کو ٹال سکتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ چیزیں بھی اللہ تعالیٰ کی مشیّت ہی ہیں۔‘‘[1] یا جیسا کہ آپ نے فرمایا: ’’دعا اور بلا آپس میں ملتی ہیں اور آسمان وزمین کے مابین لڑتی رہتی ہیں۔‘‘[2] |
Book Name | فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے |
Writer | شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ |
Publisher | دار السلام |
Publish Year | 2007 |
Translator | مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی |
Volume | |
Number of Pages | 259 |
Introduction |