Maktaba Wahhabi

192 - 259
اس بارے میں اختلاف ہے کہ زندہ آدمیوں کے نوحے سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے یا نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا: میت کو ان گناہوں سے تکلیف ہوتی ہے جو اس کے پاس کیے جاتے ہیں۔‘‘ تو پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح اسے تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی سن کر خوشی بھی حاصل ہوتی ہوگی۔ اگر یہ استدلال مان لیا جائے تو بھی قبر پر تلاوت کا استحباب ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر یہ مشروع ہوتا تو نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے بیان کردیا ہوتا۔ یہ چیز اگر مفید ثابت ہوجائے تو بھی جائز نہ ہوگی کیونکہ اس میں فساد کا پہلو غالب ہے جس طرح کہ قبر کے پاس نماز پڑھنے کا بیان گزر چکا ہے۔ اور پھر قرآن خوانی کی بنسبت مردے کو زندہ کی دعا واستغفار اور صدقے سے کہیں زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے، تو کیوں نہ وہی کام کیا جائے جو مشروع بھی ہے اور جملہ مفاسد سے دور بھی ہے۔ اسی لیے علمائے اسلام میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ قبر پر تلاوت ہونی چاہیے کیونکہ یقین سے معلوم ہوچکا ہے کہ اسے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے مشروع نہیں کیا۔ ہاں جو کچھ اختلاف ہے وہ قبر کے پاس مطلق قراء ت کے بارے میں ہے اور اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کے تین قول ہیں: ایک یہ کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اصحاب ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم کی جماعت کا بھی یہی خیال ہے اور یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس وصیت کی بنا پر ہے جو انھوں نے انتقال کے وقت کی تھی کہ دفن کے بعد ان کی قبر پر سورئہ بقرہ کی ابتدائی و آخری آیتیں پڑھی جائیں۔[1]
Flag Counter