Maktaba Wahhabi

35 - 259
بیٹے مسیح کو بھی، حالانکہ انھیں صرف اکیلے اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سواکوئی معبود نہیں، ان کے شریک مقرر کرنے سے وہ پاک ہے۔‘‘ [1] حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ [2] نے جب یہ آیت مبارکہ سنی تو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اہل کتاب نے تو اپنے احبار ورہبان کی کبھی عبادت نہیں کی۔ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’ہاں، عبادت تو نہیں کی، لیکن جب ان علماء اور درویشوں نے حرام کو حلال بنادیا تو عوام نے اس میں ان کی اطاعت کی اور جب انھوں نے حلال کو حرام قرار دے دیا تو عوام نے اسے بھی منظور کرلیا۔‘‘[3] پس جو شخص دین الٰہی میں کسی کی دخل اندازی منظور کرلیتا ہے گویا وہ اس کی تحلیل وتحریم اوراستحباب وایجاب کو قبول کرلیتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھی اس مذمت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے، ہاں کبھی یوں ہوتا ہے کہ یہ تحلیل وتحریم اجتہاد کی بنا پر ہوتی ہے تو اسے ان کے اجتہاد کی و جہ سے معاف کردیا جاتا ہے بشرطیکہ یہ اجتہاد ایسا ہو کہ غلطی ہوجانے کی بنا پر قابل معافی ہو بلکہ اس اجتہاد پر ثواب بھی ملتا ہے۔ اس صورت میں مذمت لاحق نہیں ہوتی کیونکہ اس کی شرط مفقود ہوتی ہے یا کوئی اور مانع موجود ہوتا ہے، اگرچہ مقتضی قائم ہوتا ہے۔ البتہ اس شخص کو مذمت ضرور لاحق ہوتی ہے جو حق جان لینے پر بھی اس کام کو نہیں چھوڑتا یا حق کی جستجو میں کوتاہی کرتا ہے یا کسی خود غرضی یا سستی کی بنا پر سرے سے حق کی تلاش ہی نہیں کرتا۔
Flag Counter