Maktaba Wahhabi

42 - 259
جب اکثر اہلِ علم نے امام مالک رحمہ اللہ کے زمانے میں موجود علمائے مدینہ کا عمل اوراجماع قابل حجت قرار نہیں دیا بلکہ سنت کو ان لوگوں پر بھی حجت سمجھا جیسا کہ وہ دوسروں پر حجت ہے، حالانکہ ان کا علم وایمان مشہور ومعروف ہے، تو پھر مومن عالم ان لوگوں کے اعمال کو کیونکر حجت سمجھ سکتا ہے جنھوں نے محض عادت یا تقلید کی راہ سے انھیں اختیار کرلیا ہے، یا عوام نے انھیں ان پر مجبور کردیاہے، یا ایسے لوگوں نے مجبور کردیا ہے جو جہالت کی راہ سے سرداری کے رتبے پر پہنچے ہیں۔ وہ علم میں رسوخ رکھتے ہیں نہ اولواالامر میں شمار کیے جاتے ہیں اور نہ شوریٰ (مشورہ) کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ شاید اللہ اور اس کے رسول پرپورا ایمان بھی نہیں رکھتے یا ایسے لوگوں کا عمل جو اگر چہ اہلِ فضل ہیں، مگر بغیر سوچے سمجھے محض عادت کی وجہ سے اس بھیڑ میں چلے گئے ہیں یا کسی شبہ نے انھیں ان اعمال میں مبتلا کردیا ہے۔ ان لوگوں کی نسبت زیادہ سے زیادہ اچھا گمان یہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ائمہ وصدیقین کی جماعت مجتہدین کے درجے میں ہیں۔ لیکن اس کا جواب معلوم ہی ہے کہ ان لوگوں کے اعمال، یا دوسرے لوگوں کے اعمال شریعت میں حجت نہیں بن سکتے۔ ان سے استدلال کرنا اہلِ علم کا طریقہ نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہالت عام ہوگئی ہے اکثر لوگ ایسے واہی اور کمزور دلائل کو مستند سمجھنے لگے ہیں حتی کہ علم ِدین سے نسبت رکھنے والوں میں سے بھی بعض اس جہالت کا شکار ہوگئے ہیں۔ بعض اوقات، بعض اہلِ علم کچھ اور دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں مگر اللہ جانتا ہے کہ ان کا قول وعمل، شریعت میں دلیل وحجت نہیں اور اگر انھیں شبہ واقع ہوتا ہے تو وہ بھی ایسے امور پر مبنی ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ نہیں ہیں اور جن پر اہلِ علم وایمان یقین نہیں رکھتے بلکہ دوسرے لوگ ہی بھروسا کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ شرعی حجتیں صرف اس لیے بیان کرتے ہیں کہ مخاطب کو خاموش کراسکیں، حالانکہ یہ قابلِ تعریف مناظرہ نہیں، تعریف کے
Flag Counter