Maktaba Wahhabi

54 - 259
والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلاتا ہے۔ ‘‘[1] کے عموم میں داخل ہے یا یہ کہ اسے جمعہ کی اذان پر قیاس کرلیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ عیدین میں اذان کے استحسان پراستدلال (کہ اس موقع پر اذان کہنا ایک حسن و خوبی والا اچھا کام ہے) اس استدلال سے کہیں زیادہ قوی ہے جو اکثر بدعتوں کی تائید میں کیاجاتا ہے لیکن اتنے قوی اور مضبوط استدلال کے باوجود بھی وہ بدعت ہی ہے کیونکہ عیدین میں اذان کی جو ضرورت بھی بتائی جائے وہ عہدِ نبوی میں بھی موجود تھی اور اس کے خلاف کوئی مانع بھی درپیش نہ تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کردیا۔ جمعہ میں اذان کا حکم دیا لیکن عیدین کی نماز بغیر اذان واقامت کے پڑھی[2]۔ چونکہ آپ کا کسی فعل کو ترک کردینا بھی اسی طرح سنت ہے جس طرح آپ کا کسی فعل کو اختیار کرلینا سنت ہے، اس لیے عیدین میں اذان کا ترک کرنا سنت شمار ہوگا اب کسی کے لیے روا اور جائز نہیں کہ اس طریقے میں کمی بیشی کرے۔ اس طریقے میں دست اندازی اور مداخلت ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص نماز کی رکعتوں میں اضافہ کردے۔ ظہر کی چار رکعتوں کے بجائے پانچ پڑھنے لگے اور دلیل یہ پیش کرے کہ نماز عمل صالح ہے اور چار کی جگہ پانچ رکعتیں عمل صالح میں اضافہ ہے، اس لیے مستحسن ومباح ہے۔ اس طرح پھر یہ بھی جائز ہوا کہ کوئی شخص کسی جگہ کو مخصوص کرکے دعا یا ذکر ِالٰہی کے لیے اس کا قصد کرے اور اس کی دلیل میں کہا جائے کہ ’’یہ تو بدعت حسنہ ہے‘‘ لیکن ہم اس فعل سے منع کریں گے اور کہیں گے کہ یہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہوتی ہے۔ اس خاص فعل کی
Flag Counter