Maktaba Wahhabi

68 - 259
ہے اور یہ دلیل ہے۔ ‘‘ ہمارا جواب یہ ہے کہ جوکوئی عیدیں مناتا ہے اور ان کے بارے میں کوئی تاویل رکھتا ہے، خواہ وہ اس تاویل میں مجتہد ہو یا مقلد، تو اسے اس کی نیک نیتی کا اور ان اعمال کا ثواب ملتا ہے جو مشروع ہیں۔ اور جو اعمال محض بدعت کے کام ہیں ان کو بخش دیا جائے گا بشرطیکہ وہ اپنے اجتہاد یا تقلید میں اس درجے پرہو جس میں آدمی معذور ہوتا ہے۔ باقی رہے روحانی فوائد جو ان تہواروں میں بتائے جاتے ہیں، سو وہ صرف اس لیے حاصل ہوتے ہیں کہ ان میں مشروع اعمال بھی کیے جاتے ہیں۔ مثلاً روزہ، ذکر وتلاوت، رکوع وسجود، عبادت ودعا اور اطاعت میں حسن قصد، اور جو مکروہ اعمال کیے جاتے ہیں ان کو آدمی کے اجتہاد یا تقلید کی وجہ سے عفو ِالٰہی شامل حال ہوجاتی ہے۔ یہ بات ان تمام بدعتوں میں یاد رکھنی چاہیے جن میں بعض فوائد بیان کیے جاتے ہیں۔ لیکن صرف اس بنا پر ان بدعتوں کی نہ کراہت دور ہوسکتی ہے اور نہ ان کی ممانعت میں فرق آسکتا ہے بلکہ ہمیشہ اسی بات پر زور دیا جائے گا کہ انھیں چھوڑو اور ان کے بدلے مشروع اعمال اختیار کرو جن میں بدعت کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ محض کسی فائدے کا حصول، بدعت کو مباح نہیں بناسکتا۔ جن لوگوں نے عیدین میں اذان زیادہ کردی تھی وہ بھی اس میں فائدہ محسوس کرتے تھے، بلکہ یہود ونصاری بھی اپنی طرف سے زیادہ کی ہوئی عبادتوں میں فوائد پاتے ہیں۔ اور یہ اس لیے کہ ان کی عبادات کا کوئی نہ کوئی جزاور حصہ مشروع ہوتا تھا اور ان کے اقوال میں کوئی نہ کوئی بات انبیاء علیہم السلام کی صداقت سے ضرور ماثور ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود کوئی بھی یہ جائز نہیں سمجھتا کہ ان کی عبادتیں اختیار کرلی جائیں اور ان کی باتیں روایت کی جائیں کیونکہ تمام بدعتوں میں شرکا پلہ خیر کے پلے سے بھاری ہوتا ہے، اس لیے کہ اگر ان میں خیر
Flag Counter