Maktaba Wahhabi

196 - 360
کہ وہ ایک دن اور ایک رات کا سفر کسی محرم کے بغیر کرے۔ عورتوں کے لیے اس حکم سے یہ ہر گز نہ سمجھ لیا جائے کہ دین اسلام عورتوں کی طرف سے کافی بد ظن ہے اور عورتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ حکم خود عورتوں کی بہتری اور ان کے فائدے کے لیے ہے تاکہ ان کے سب سے قیمتی زیور یعنی ان کی عزت و کرامت پر کبھی کوئی آنچ نہ آئے ۔ ہر عقل مند شخص اس بات کو بہ خوبی سمجھ سکتا ہے کہ سفر میں اکیلی عورت کی عزت کس قدر خطرے کی زد میں ہوتی ہے۔ تاہم عورت اگر حج کی استطاعت رکھتی ہو اور شوہر یا محرم سے محروم ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں: 1۔ بعض فقہاء نے مذکورہ احادیث کے عموم پر عمل کرتے ہوئے اکیلی عورت کے لیے ہر قسم کو ناجائز قراردیا ہے چاہے وہ حج کے لیے ہی سفر کیوں نہ ہو۔ 2۔ بعض فقہاء نے اس حکم سے ایسی بوڑھی عورت کو مستثنیٰ قراردیا ہےجو کسی کے لیے توجہ کا مرکز نہ بن سکتی ہو۔ 3۔ بعض فقہاء نے اس حکم سے اس عورت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو بھر وسہ مند عورتوں کی جماعت کے ساتھ سفر کر رہی ہو۔ امام شافعی کے نزدیک تو صرف ایک صالح عورت کی معیت بھی کافی ہے۔ 4۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اگر اس بات کا یقین ہو کہ سفر پر امن اور محفوظ ہے تو اکیلی عورت بھی حج کے لیے جا سکتی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اگر سفر محفوظ ہو جیسا کہ آج کل ہوئی جہاز کا سفر ہوتا ہے اور ساتھ میں نیک عورتوں یا مردوں کی جماعت ہو تو عورت بغیر محرم اور شوہر کے حج یا کسی اور سفر کے لیے نکل سکتی ہے دلیل کے طور پر دو حدیثیں پیش کرتا ہوں۔ 1۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سفر پر روانہ کیا تھا۔ اس واقعہ پر کسی
Flag Counter