Maktaba Wahhabi

197 - 360
صحابی نے اعتراض نہیں کیا( بخاری) 2۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی کی تھی کہ چند برسوں میں اسلام کا یوں غلبہ ہو گا اور راستے اتنے پر امن ہوں گے کہ اکیلی عورت حیرہ (عراق) سے حج کی نیت سے مکے کا سفر اکیلی کرے گی۔ اسے خدا کے علاوہ کسی سے ڈر نہیں ہو گا۔ (بخاری ، مسلم) اس حدیث میں نہ صرف اس بات کی پیشن گوئی ہے کہ ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو گا بلکہ پرامن ہونے کی صورت میں اکیلی عورت کے سفر پر نکلنے کے جواز کی بھی دلیل ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کی پیشن گوئی تعریف اور مدح کے صیغے میں فرمائی ہے۔ یہاں میں دوواقعات کا ذکر کرتا ہوں۔ 1۔ عبادات اور معاملات میں فرق یہ ہے کہ معاملات کے سلسلے میں جو اسلامی احکام ہیں ان کی روح اور ان مقاصد پر نظر رہنی چاہیے جن کی وجہ سے یہ احکام دئیے گئے برخلاف عبادات کے کیوں کہ عبادات کی روح یہ ہے کہ انہیں ویسے ہی بجالایا جائے جیسا حکم دیا گیا ہے چاہے ان کے مقاصد اور حکمت و علت سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں۔ 2۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جو چیز فی نفسہ حرام قراردی گئی ہے وہ کبھی حلال نہیں ہو سکتی۔ سوائے اس کے کہ کسی وقت شدید ضرورت پیش آجائے۔ مثلاً سور کا گوشت ہمیشہ حرام رہے گا ۔ تاہم جان پر بنی ہو تو اس کا گوشت جان بچانے کے لیے کھایا جا سکتا ہے۔ البتہ وہ چیز جو کسی خرابی یا فساد کو دور کرنے یا اس سے بچنے کے لیے حرام کی گئی ہو ضرورت پڑنے پر وہ چیز حلال بھی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اکیلی عورت کا سفر اس لیے حرام ہے تاکہ اس کی عزت کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو۔ اس لیے اگر اکیلی سفر کرنے کے باوجود عورت اپنی عزت کو محفوظ رکھ سکتی ہے تو اس کا اکیلی سفر کرناجائز ہے۔
Flag Counter