Maktaba Wahhabi

228 - 360
تمہاری دنیا میں سے مجھے عورت اور خوش بومحبوب ہے ۔ ان کے علاوہ متعدد احادیث ہیں، جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صالح عورت کو نعمت قراردیا ہے۔ قرآن میں عورت کی تخلیق کا مقصد یہ بتایاگیا ہے کہ اسے مرد کے لیے باعث سکون بنایا گیا ہے۔ (2)۔ اگر عورت سراپا شر ہوتی تو وہ دنیا کی عظیم نعمت کیسے ہوتی اور مردوں کے لیے باعث سکون کیونکر قرارپاتی؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن وحدیث کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ عورت سراپا شر ہے۔ اگر انہوں نے یہ بات کہی تو ان کا اپنی زوجہ یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں کیا خیال ہے۔ جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی۔ کیا ان کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ وہ سراپا شر ہیں؟ عورت کی فطرت مرد کی فطرت سے بہت مختلف نہیں ہے۔ جس طرح مرد نیکی اور بدی دونوں کےمرتکب ہوتے ہیں، اسی طرح عورتیں بھی نیک اور بد دونوں طرح کی ہوتی ہیں۔ البتہ ایک حدیث ہے جس میں عورتوں کے فتنے سے خبردار کیا گیاہے۔ حدیث ہے: "مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ"(بخاری) میرے بعد کوئی ایسا فتنہ نہیں رہ جائے گا جومردوں کے لیے خطرناک ہو، عورتوں سے بڑھ کر۔ اس حدیث میں عورتوں کے فتنے سے خبردار کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں سراپاشر ہیں بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ عورتوں میں ایسی کشش اور جاذبیت ہوتی ہے کہ اس بات کا بڑا خدشہ ہوتا ہے کہ مرد ان میں الجھ کر خدا اور آخرت کو فراموش کر بیٹھیں۔ اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مال ودولت اور اولاد کے فتنے سے بھی خبردار کیا ہے: "إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ" (التغابن:15)
Flag Counter