Maktaba Wahhabi

288 - 360
"وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا " (بنی اسرائیل:29) نہ تو اپناہاتھ گردن سے باندھ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑدو(یعنی نہ فضول خرچی کرو اور نہ کنجوسی کرو) کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ ۔ اور اپنے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا" (الفرقان:67) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کاخرچ دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔ بیوی اور بال بچوں کے نان نفقے میں میانہ روی کی کیا صورت ہوگی، شریعت نے اس کی کوئی حد تو مقرر نہیں کی ہے البتہ قرآن وحدیث کی رو سے میانہ روی یہ ہے کہ ان کی ضرورتوں کو معروف طریقہ سے پورا کیاجائے۔ معروف طریقے سے ضرورتوں کو پورا کرنے کامطلب یہ ہے کہ بیوی کی جائز ضروریات اور مناسب خواہشوں کو مد نظررکھا جائے۔ بیوی نے جن حالات میں نشوونماپائی ہے ان کا خیال کیا جائے۔ شوہر خود کس قدر صاحب حیثیت ہے اس کونظر میں رکھا جائے شوہر اگر مال دار ہے تو اسے اپنی اچھی پوزیشن کے مطابق اپنے اہل خانہ پر خرچ کرنا چاہیے اوراگر تنگ دست ہے تو اپنی بساط بھر اپنے گھروالوں پر خرچ کرے۔ قرآن نے اس طرف اشارہ کیا ہے: "لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آَتَاهُ اللّٰهُ " (الطلاق :7) خوش حال آدمی اپنی خوش حالی کے مطابق نفقہ دے اور جس کو رزق کم دیا گیاہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ دوسری آیت ہے:
Flag Counter