Maktaba Wahhabi

329 - 360
میں اس سے ملاقات ہوئی تو مجھے شر مندگی ہوئی کہ میں اپنا وعدہ پورا نہ کر سکی۔ چنانچہ میں نے بہانہ بنادیا کہ گھر میں عین وقت پر مہمان آگئے تھے اس لیے میں نہ آسکی۔ کیا اس طرح کی بہانہ بازی جھوٹ کہلائے گی؟ حالانکہ میں نے یہ بہانہ محض اس لیے کیا کہ میری سہیلی مجھ سے ناراض نہ ہو اور ہمارے تعلقات متاثر نہ ہوں ۔ یہ ایسا جھوٹ ہر گز نہیں جیسا کہ لوگ خریدو فرخت میں دھوکہ دینے کے لیے یا کسی کا حق مارنے کے لیے بولتے ہیں۔ میرا جھوٹ بولنا محض اس لیے تھا کہ میں آسانی سے اپنی سہیلی کو منا سکوں ۔ کیا ایسا جھوٹ بولنا شریعت کی نظر میں جائز ہے؟ جواب:۔ کسی جید اور معتبر عالم سے اس مقصد کے لیے سوال کرنا کہ کہیں سے کوئی رخصت کا پہلو نکل آئے شرعاً جائز ہے۔ اسی لیے سفیان الثوری نے فرمایا ہے: "إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَنَا الرُّخْصَةُ مِنْ ثِقَةٍ ، فَأَمَّا التَّشْدِيدُ فَيُحْسِنُهُ كُلُّ أَحَدٍ " علم یہ ہے کہ کسی معتبر عالم سے رخصت اور چھوٹ کا پہلو نکل آئے رہی سختی اور تشد تو یہ کام تو ہر کوئی بخوبی کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں رخصت کا پہلو نکالا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹ بولنے کی رخصت نہیں دی جا سکتی الایہ کہ انتہائی ناگزیر حالت ہو۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا اسلامی شریعت کی نگاہ میں گناہ کبیرہ ہے۔ متعدد قرآنی آیات اور صحیح احادیث (پہلے سوال میں ان کا تذکرہ ہو چکا ہے) ہیں جن میں جھوٹ بولنے کی صریح ممانعت ہے۔ ذیل میں مزید دو حدیثیں پیش کر رہا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "يطبع المؤمن على كل خلة غير الخيانة والكذب " (برازاوریعلی) مومن ہر بات کا عادی ہو سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔ دوسری حدیث ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: "مَا كَانَ خُلُقٌ أَبْغَضَ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْكَذِبِ " (مسند احمد ، بزار اور حاکم)
Flag Counter