Maktaba Wahhabi

330 - 360
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جھوٹ سے بڑھ کر کوئی ناپسندیدہ عادت نہیں تھی۔ یہ تمام قرآنی آیات اور صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ دین اسلام کس شدت کے ساتھ جھوٹ کو ناپسند کرتا ہے۔ تاہم اسلام جہاں اعلیٰ قدروں اور بہترین اخلاق کی تعلیم دیتا ہے وہیں ایک عملی اور (practical)مذہب ہے۔ عملی زندگی میں بعض ایسے ناگزیر حالات پیش آجاتے ہیں جہاں جھوٹ کا سہارا لینا ضروری ہو جاتا ہے اور اسلام نے اس کی رعایت بھی کی ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان ناگزیر حالات کی نشاندہی کی ہے جہاں جھوٹ بولا جا سکتا ہے۔ میں اختصار کے ساتھ ان کے کلام کا مفہوم پیش کر رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جھوٹ بولنا فی نفسہٖ حرام نہیں ہے بلکہ اس کی حرمت اس عظیم نقصان اور دھوکہ کی وجہ سے ہے جو جھوٹ میں پوشیدہ ہے۔ جھوٹ یا تو کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے بولا جا تا ہے یا دھوکہ دینے کے لیے یا اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے ہیں یا کم از کم اس کامقصود یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کو اصل حقیقت سے غافل رکھا جائے۔ انسان کا ہر کلام کسی مقصد کے تحت ہوتا ہے۔ اس مقصد تک جھوٹ اور سچ دونوں ذریعے سے پہنچا جاسکتا ہے۔ اگر انسان کا مقصد جائز ہے اور جھوٹ کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس کا حصول ممکن نہیں تو ایسی صورت میں جھوٹ بولنا جائز ہوگا اور اگر انسان کا مقصد نیک ہے اور اس کا حصول ضروری ہے اور جھوٹ کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس کا حصول ممکن نہیں تو ایسی صورت میں جھوٹ بولنا واجب ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کی جان لینا چاہتا ہو اور جان کے ڈر سے وہ شخص آپ کے گھر میں روپوش ہو جائے۔ تھوڑی دیر میں جان لینے والا شخص آپ کے گھر آکر اس شخص کا پتہ پوچھے تو آپ کیا جواب دیں گے؟کیا یہ کہیں گے کہ ہاں وہ شخص میرے گھر میں روپوش ہے آؤ اور اسے مار ڈالو۔ اس کی جان بچانے کے لیے آپ جھوٹ بولیں گے ۔ یقیناً
Flag Counter