Maktaba Wahhabi

331 - 360
ایسی صورت میں جھوٹ بولنا واجب ہے۔ میری ان باتوں کی بنیاد وہ حدیث ہے جو بعض حالات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتی ہے۔ حدیث ہے۔ "عن أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ رضي اللّٰه عنها ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ : ( لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا ) . قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَلَمْ أَسْمَعْ يُرَخَّصُ فِي شَيْءٍ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ كَذِبٌ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ : الْحَرْبُ ، وَالْإِصْلَاحُ بَيْنَ النَّاسِ ، وَحَدِيثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَحَدِيثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا " (مسلم) میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی جھوٹ کی رخصت دیتے نہیں سنا مگر تین موقعوں پر، کوئی شخص صلح صفائی کی خاطر جھوٹ بولے یا جنگ کے موقع پر جھوٹ بولے یا شوہر اپنی بیوی سے اور بیوی اپنے شوہر سے جھوٹ بولے (جھگڑا ختم کرنے کے لیے)۔ دوسری حدیث ہے: "ليس بكذاب من أصلح بين اثنين فقال خيراً أو أنمى خيراً" (بخاری ، مسلم) وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو دو بندوں کے درمیان صلح صفائی کرانا چاہتا ہو چنانچہ وہ بھلا بات کہتا ہے یا بھلی بات کی چغلی کرتا ہے۔ امام غزالی آگے لکھتے ہیں کہ ان احادیث میں ان تین حالات کا ذکر ہے جہاں جھوٹ بولا جا سکتا ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے۔ ان ہی کے زمرہ میں ہر وہ حالت ہو گی جب جھوٹ بولنے سے کسی انجام نیک کی امید ہو اور سچ بولنے سے کسی مصیبت میں پڑنے کا امکان ہو۔ بہ شرطے کہ یہ نیک انجام شریعت کی نظر میں نیک ہو۔ چنانچہ مال و دولت کی حفاظت اور عزت و آبرو کی حفاظت کی غرض سے بھی جھوٹ کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کے پاس مال ہے اور کوئی شخص زبردستی اسے چھیننا چاہتا ہے
Flag Counter