Maktaba Wahhabi

59 - 360
اگر حدیث نہیں ہیں تو ان میں صحیح کون ہے اور غلط کون؟ جواب:۔ پہلا مقولہ تو ایک حدیث نبوی کا جزوہے۔ پوری حدیث یوں ہے: "الأناة من الله تعالى، والعجلة من الشيطان"(2) ٹھہرٹھہر کرعمدگی سے کام کرنا اللہ کی صفت ہے اور جلد بازی شیطان کی صفت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جلد بازی کوہرزمانے میں اور ہر قوم نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کے برعکس ٹھہر ٹھہر کر خوش اسلوبی کے ساتھ کام نمٹانے کی تعریف ہرزمانے کے ذی شعور لوگوں نے کی ہے۔ اس مفہوم کا حامل ایک مشہور مقولہ ہے: "في التأني السلامة وفي العجلة الندامة" سوچ بچار کر ٹھہرٹھہر کا کام کرنے میں سلامتی ہے اور جلد بازی میں ندامت ہے ۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جلد بازی کو شیطان کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جلد بازی میں جو فیصلہ کیا جاتا ہے اس میں ہلکاپن، غصہ اور طیش شامل ہوتا ہے جو بندے کو وقار، بردباری اور ثبات سے دور کرتا ہے چنانچہ اس کے نتائج ہمیشہ برے ہوتے ہیں۔ ایک حدیث نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے: يُسْتَجَابُ لأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ"(3) بندے کی دُعاقبول ہوتی ہے اگر وہ جلدی نہ مچائے ۔ رہا دوسرا مقولہ تو وہ کوئی حدیث نہیں ہے البتہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی مفہوم کا ایک قول مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "لَا يَتِمُّ الْمَعْرُوفُ إلَّا بِثَلَاثٍ خِصَالٍ : تَعْجِيلُهُ" بھلا کام اُسی وقت پورا ہوتا ہے جب اسے جلد از جلد کرلیا جائے ۔
Flag Counter