Maktaba Wahhabi

60 - 360
اس قول میں بھلائی کے کام کو جلد کرنے کی ترغیب ہے۔ اس امرمیں کوئی شک نہیں کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا اوراس کی طرف تیزی سے لپکنا ایک پسندیدہ اور قابل تعریف صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے: "أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ " (المومنون:61) یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایک دوسری آیت ہے: "فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ "(البقرۃ:148) بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ ۔ چنانچہ یہ دوسرا مقولہ اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے بالکل درست ہے گرچہ یہ حدیث نہیں ہے۔ اور اس مقولے اور مذکورہ حدیث کے درمیان معنی ومفہوم کے اعتبار سے کوئی تناقض بھی نہیں ہے کہ مطابقت کی ضرورت ہو۔ علمائے کرام نے ٹھہر ٹھہر کر کام کرنے کو قابل تعریف اور جلد بازی کو قابل مذمت تین شرطوں کے ساتھ ٹھہرایا ہے: 1۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کام جس کا کرنا مقصود ہواگر اطاعت الٰہی اور بھلائی اور نیکی کے دائرے میں آتا ہے تو اس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنا اور اس میں جلد بازی کرنا نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ یہی مطلوب ومقصود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت کی تھی کہ اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ !تم تین چیزوں میں کبھی تاخیر نہ کرنا۔ نماز جب اس کاوقت ہوجائے، جنازہ جب سامنے لاکررکھ دیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح جب اس کابرمل جائے(4) مشہور عالم دین ابوالعیناء کو کسی نے جلد بازی سے منع کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو موسیٰ علیہ السلام کبھی اللہ سے یہ نہ کہتے کہ:
Flag Counter