Maktaba Wahhabi

112 - 534
ہمارے معاشرے میں یہ بات بہت عام ہے کہ لوگ اس چیز کا سودا طے کرلیتے ہیں جو سودے کے وقت اُن کی ملکیت میں نہیں ہوتی یعنی انہوں نے اُسے خریدا ہی نہیں ہوتا بلکہ اُن کا مقصدبعد میں مارکیٹ سےخرید کر اسے خریدار تک پہنچانا ہوتا ہے جوکہ شرعاً ایک ناجائز عمل ہے،کیونکہ اس میں نقصان کے کافی احتمالات ہیں ،جیسے: اُس چیز کا مارکیٹ سےہی ختم ہوجانا، جس قیمت پر اُس نے سودا کیا ہووقتِ خرید اُس قیمت کا بڑھ جاناوغیرہ وغیرہ ،اور پھر اس کے نتیجہ میں تنازع ، نفرت ، عداوت و فسادبھی ہوسکتا ہے ، لہٰذا مال وزر ، عزت وجان کی حفاظت کی خاطر شریعت ایسے کاموں سے سختی سے روکتی ہے۔ قرآن حکیم میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَأْكُلُوْٓا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّآ أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ } [النساء: 29] ترجمہ:’’ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، درست صورت یہ ہے کہ باہمی رضا مندی سے آپس میں لین دین ہو۔ ‘‘ اور باطل طریقے سے مال کھانے کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے۔ اسی طرح یقیناً کوئی شخص بھی اس بات پر راضی نہیں ہوگا کہ کوئی دوسرا اُس کے مال میں تصرّف کرے اور اُسے بیچ ڈالے۔ صورتِ ہٰذا میں بیچنے والا کسی دوسرے کے مال کو جو ابھی اِس کی ملکیت میں نہیں آیا اُسے بیچ رہا ہےجو مالِ غیر میں تصرّف کے مترادف ہے۔ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیاکہ: میرے پاس ایک آدمی آتا ہےجو مجھ سے ایسی چیز کا سودا کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس چیز کا اس سےسودا کر لوں پھر وہ چیز بازار سے خرید کر اسے دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا:جو چیزتمہارےپاس(یعنی تمہاری ملکیت میں، یا قدرت و اختیار میں) موجودنہیں اُسے فروخت نہ کرو‘‘۔[1]
Flag Counter