Maktaba Wahhabi

113 - 534
نوٹ (الف) خرید و فروخت کی جانے والی شے دو قسم کی ہوتی ہے : (1) کبھی تو متعیّن و محدّدہوتی ہے ،جسے دیکھا جاسکتا ہو، جیسے کوئی کہے کہ: میں تمہیں یہ گاڑی جو اُس کی نظروں کے سامنے ہو ،جو Hondaکمپنی کی ہے جس کا نام Civicہے اسے بیچتا ہوں ۔ (2) اور کبھی وہ شےمتعین نہیں ہوتی بلکہ اس کی مخصوص قسم کی صفات واضح ہوتی ہیں، لیکن وہ شےنہ ہی سامنےہوتی ہے اور نہ ہی اُسے دیکھا جاسکتا ہے،جیسے کوئی کہے کہ میں تمہیں فلاں کمپنی کی فلاں صفات والی گاڑی بیچتا ہوں ۔ مذکورہ روایت میں سیدنا حزام رضی اللہ عنہ کے سوال سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا سوال پہلی قسم سے تھا یعنی متعین شےکے سودےکے حوالہ سے تھا، جس کا معنی ہے کہ اگر خرید و فروخت کی جانے والی چیزمتعیّن ہوتو ایسا سودا ملکیتِ کاملہ سے پہلے جائز نہیں ۔ مسئلہ بیع السلم یا بیع السلف لیکن اگر چیزکےتعیّن کی بجائےاُس کی مخصوص صفات بیان ہوں اور بیچنے والا اسےمستقبل کی ایک خاص مدّت کے اندر (جس میں فریقین کا اتفاق طے پائے)مہیّا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ اُس کی مکمل قیمت پیشگی ادا کردی جائےتو یہ سودا جائز ہے جسے شرعی اصطلاح میں بیع السلم یا بیع السلف کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ ، آیۃنمبر:282 اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کی حدیث کی روشنی میں بیع سلم یا سلف صحیح و درست ہےجیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہےکہ: تم میں سے جو بھی بیع سلف (سلم)کرنا چاہتا ہے تو اُسے چاہئے کہ وہ معلوم و متعیّن وزن و پیمانے (یعنی معلوم صفات) اور معلوم ومتعیّن مدّت کےساتھ کرے۔[1]
Flag Counter