Maktaba Wahhabi

208 - 534
فرماتے ہیں: بعض حضرات بیع سلم کو خلافِ قیاس کہتے ہیں ، ان کے پاس دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ جو چیز تمہارےپاس نہیں ہے اسے مت بیچو‘‘[1]پس بیعِ سلم بھی معدوم ہے لہٰذا وہ ناجائزہونی چاہیے۔لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ بیعِ سلم میں جس چیز کا سودا ہوتا ہے وہ (اپنی صفات کےاعتبارسےواضح و)ظاہرہوتی ہے،فروخت کنندہ کےذمہ ہوتی ہے،اوراُسےعموماً سونپے جانے پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ اوریہ تو بالکل ایسی ہی صورت ہے جیسے نفع کے عوض مزدوری کرنا۔ اور اس صورت کا مطابق ِ قیاس ہونا ہم زبردست دلائل سے ثابت کر چکے ہیں ۔لہٰذا بیع معدوم پر اس کا قیاس غلط ہے۔ بیعِ معدوم میں تو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اسے حاصل کرنے پر قدرت ہوگی بھی یا نہیں ۔اس میں فروخت کنندہ اورخریدار دونوں ہی دھوکہ میں رہتے ہیں پھر اس پر اس کے مخالف چیز کو قیاس کرنا یہی تو بدترین قیاس ہے، ظاہری بھی اور باطنی بھی ، صورۃ ًبھی اور معنا ًبھی، کسی طرح بھی یہ قیاس کسی عقلمند کے نزدیک تھوڑی دیر کیلئے بھی صحیح نہیں سمجھا جا سکتا ۔کہاں وہ(بیعِ معدوم کہ)جو نہ پاس ہو ، نہ ملکیت میں ہو اورنہ ہی اُسے سونپنے پرقدرت و طاقت حاصل ہو اور کہاں وہ(بیعِ سلف کہ) جو فروخت کنندہ کے ذمے ہو، خریدار کو مل سکتی ہو،اور جسے سونپےجانے پرقدرت وطاقت حاصل ہو۔ اب ان دونوں کو جمع کر دینا ایسے ہی ہے جیسے مردار اور ذبیحہ کو ایک کہنا ، جیسے سود اور تجارت کو ایک سمجھنا ۔ اور جو حدیث(بیعِ سلم کے عدمِ جواز کے لئے)پیش کی گئی ہے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سیدناحکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا’’کہ جو تمہارے پاس نہیں اُسے مت بیچو‘‘[2] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ:کوئی شخص کسی معین چیز کو جو اس کے پاس نہ ہو بلکہ دوسرے کی ملکیت میں
Flag Counter