Maktaba Wahhabi

209 - 534
ہو،وہ اُسےکسی کوبیچ دے پھراس کوحاصل کرنے کی کوشش کرتا پھرے اور اسےخریدارتک پہنچانے کی سعی میں رہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ:وہ اس چیز کو بیچنے کی کوشش کرتا ہے جسے خریدار تک پہنچانے کی قدرت و طاقت اسے نہیں ۔گو وہ ایسی ذمہ داری اٹھالیتا ہےکہ جس کے بارے میں اُسے معلوم نہیں کہ وہ اُسے ادا کر بھی پائے گا کہ نہیں ۔ اس طرح اس میں کئی ایک خرابیاں لازم آتی ہیں: (1) ایک ایسی معین چیز کابیچنا جو اس کی ملکیت میں نہیں۔ (2) ایسا معاملہ اپنے ذمہ لینا جسے پورا کرنے کی طاقت نہیں۔ (3) ایسی چیز کا ادھارکرناجس کے ملنے کی عادتاً توقع نہیں ۔ (اور جہاں تک بیعِ سلم کا تعلق ہے تو)جب مذکورہ تینوں خرابیاں نہ ہوں تو بیشک اور قرضوں کی طرح یہ بھی ایک طرح کا قرض ہوگا۔جیسے کوئی چیز مؤخر قیمت پر قرضاًلے لی جائے۔ پس قیاس و مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ ادھار کی خریدو فروخت جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:’’ایمان والو! جب تم قرض کا لین دین کرو جس میں مدت مقرر کی گئی ہو تو لکھت پڑھت کر لیا کرو‘‘[البقرۃ: 282] یہ آیت قیمت اور مال دونوں کو شامل ہے(یعنی دونوں میں ادھارجائز ہے) سیدنا عبداللہ بن عباس  جو قرآن کریم کے ترجمان ہیں انہوں نے اس سے یہی سمجھا اور سمجھایاہےجیساکہ وہ فرماتے ہیں کہ: اپنی ذمہ داری پر قرض حلال ہے۔پھر آپ رضی اللہ عنہما نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ پس ادھار کی خریدو فروخت قیاس کے مطابق اور مصلحت کے موافق ہے ۔شریعت جو مکمل ہے اور مکمل انصاف پر مبنی ہے وہ اسے کبھی ناجائز نہیں کر سکتی۔(بیعِ سلم میں ) مکمل قیمت تو اسی وقت لے لی جاتی ہے اور چیز بعد میں دی جاتی ہے۔ اس لئےکہ اگر قیمت بھی نہیں لی جائے تو ذمہ داری بے فائدہ ہوگئی ا سی کا نام سلم رکھا گیا ہے (یعنی ایسی بیع کہ جس میں)قیمت ہاتھوں ہاتھ سونپ دی جاتی ہے،اور اگر قیمت اور چیز دونوں ہی ادھار ہوں تو یہ’’بیع الکالی بالکالی‘‘ ’’یعنی ادھار کے بدلے ادھا ر کی بیع ‘‘ہوجائے گی جو حدیث
Flag Counter