Maktaba Wahhabi

211 - 534
میں ادا کرنا شرط ہے ، اُسے مؤخر نہیں کیا جاسکتااور اگرمکمل قیمت کی ادائیگی سے قبل دونوں فریق یعنی فروخت کنندہ و خریدار الگ الگ ہوجائیں تو عقد باطل قرار پائے گاکیونکہ اس طرح یہ ادھار کی ادھار کے ساتھ بیع ہوجائیگی جوکہ حدیث کی رو سے حرام ہے[1]،البتہ مالکی فقہاء کے مطابق اس میں دو سے تین دن تک کی تأخیر کی اجازت ہے ، کیونکہ یہ معمولی تأخیر ہےجو قابلِ برداشت ہے لیکن اگر معاہدہ میں مکمل قیمت کی ادائیگی کی مدت تین دن سے زیادہ طے ہوتو مالکیہ کے مطابق بھی عقد باطل ہوجائے گا۔ تاخیر سے ملنے والی شئے، سامان (مسلم فیہ) کی شرائط یہ ہیں : (1)وہ ضمانت کے تحت ہو۔(فروخت کنندہ اسے حوالہ کرنے کا ضامن ہو) (2)اس کا ایسامکمل وصف بیان کردیا جائے کہ جس سے اس کی مقدار و و زن اورممتاز صفات کا علم ہوجائے تاکہ کسی بھی قسم کے دھوکہ و تنازع کا خدشہ باقی نہ رہے۔ (3)اس کی مدت معلوم ہوکہ کب تک وہ چیزخریدار کے حوالہ کردی جائیگی۔[2] بعض اہل علم نے شرائط کو کچھ مزید پھیلا کر اور کھول کر بیان کیا ہے، جس سے مجموعی طور پر کبھی تو سات شرائط دکھائی دیتی ہیں جیسا کہ ’’المخلص الفقہی‘‘میں شیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ نے لکھا ہے اورکبھی شرائط اس تعدادسے بھی آگے نظر آتی ہیں جیسا کہ شیخ وہبہ زحیلی رحمہ اللہ نے ’’الفقہ الاسلامی‘‘ میں گیارہ تک شرائط ذکر کی ہیں۔ اس سلسلہ میں قارئین کی مزید وضاحت کے لئے اپنے وقت کے معروف و معتبر اہلِ علم کی لکھی جانے والی حواشی ، تعلیقات، تشریحات، فتاویٰ جات اور آراء تحریر کی جاتی ہیں تاکہ مسئلہ سلم،اس کی شرائط کا فہم اور بھی سہل ہو جائےاوردیگرمتعلقہ مسائل کی مکمل وضاحت ہوجائے۔ مجتہد العصر حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کے فتاویٰ میں لکھا ہے: بیع سلم کے جائز ہونے کی شرطیں حسب ذیل ہیں (1)مبیع (سامان)کی جنس معلوم ہو مثلاً کہ وہ گیہوں ہے یا جو، مکئی یا باجرہ۔
Flag Counter