Maktaba Wahhabi

212 - 534
(2)اس کی صفت معلوم ہو کہ وہ جید یعنی کھری ہے یا ردی۔ (3)اس کی نوع معلوم ہو مثلاًبارانی زمین کی ہے یا نہری زمین کی۔ (4) وقت ادائیگی معلوم ہو جو کم از کم ایک مہینہ ہے اور اس سے زائد وقت جو وہ مقرر کرے وہ بھی معلوم ہو۔ (کم از کم ایک مہینہ کی شرط کی وضاحت آگے آرہی ہے) (5)جو چیز فروخت کی جارہی ہے اس کی مقدار معلوم ہو ۔ (6)سرمایہ جو کہ اب دیا جارہا ہے جس کے بدلے مقررہ وقت پر سامان وصول کرنا ہے اگر یہ سرمایہ (قیمت) تولنے یا ماپنے یا گننے کی چیز ہو تو ا س کا معلوم کرنا بھی ضروری ہے۔ (7)اگر فروخت کردہ سامان ایسی چیز ہے جس کے اٹھانے میں مشقت اور کرایہ خرچ ہوتا ہو تو جس جگہ سے وصول کرنا ہے اس کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے ۔ بطور تصدیق ووضاحت کے حافظ محمد عبداللہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جوابات صحیح ہیں……بازاری نرخ سے اتنا کم مقرر نہ کیا جائے کہ سال میں کبھی بھی اتنا کم ہونے کا خیال نہ ہو، اگر ایسا ہو تواس میں بھی سود کاشبہ ہے، نیزیہ بھی شرط ہے کہ غلہ کے بدلے غلہ نہ ہوکیونکہ حدیث میں اس کو سود کہا گیا ہے اور مدت کم از کم ایک ماہ شرط نہیں کیونکہ حدیث میں اس کا ثبوت نہیں۔[1] شیخ الحدیث علامہ داؤ دراز دھلوی رحمہ اللہ ،صحیح بخاری کی مختصر تشریح ، ترجمہ و فوائد کے ضمن میں کچھ نکات علمیہ تحریر فرماتے ہیں ، وہ درج ذیل ہیں: جو چیزیں ماپ تول کر بیچی جاتی ہیں ان میں ماپ تول ٹھہرا کر سلم کرنا چاہئے۔اگر ماپ تول مقرر نہ کئے جائیں تو یہ بیع سلم جائز نہ ہوگی الغرض اس بیع کے لئے ضروری ہے کہ وزن مقرر ہو اور مدت مقرر ہو ورنہ بہت سے مفاسد کاخطرہ ہے۔مثلاً سوروپے کا اتنے وزن کا غلہ آج سے پورے تین ماہ بعد تم سے وصول کر لوں گایہ طے کرکے خریدار نے سو روپیہ اسی وقت ادا کردیا ۔یہ بیع سلم ہے جو جائز ہے۔اب مدت پوری ہونے پر وزن مقررہ کا غلہ اسے خریدار کو ادا کرنا ہوگا۔
Flag Counter