Maktaba Wahhabi

344 - 534
ایک مہینے کے اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے ، اور جس نے اپنے غصے پر قابو پالیا ، اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کو چھپائے گا ، جس نے غصہ کو پیا اگرچہ وہ اس کو نافذ کرنے پر قادر تھا ، اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کے دل کو رضا سے بھر دے گا اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے چلا تاکہ اسے ثابت قدم کردے ، اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت ثابت قدم رکھے گا جس دن بہت سے قدم ڈگمگائیں گے ، اور بد اخلاقی مسلمان کے عمل کو ایسے تباہ کردیتی ہے جیساکہ سرکہ شہد کو ‘‘ ۔[1] قیمتوں کی گرانی سے معاشرے کے متوسط اور نچلے طبقے پر بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔ اور چیزیں ان کی قوت خرید سے باہر ہوجاتی ہیں ۔جس سے معاشرہ میں عدم توازن کی فضا پیدا ہوتی ہے ۔ ساتواں ضابطہ : صارفین کے جذبات کو اپیل کرنے سے گریز کیا جائے شریعتِ اسلامیہ میں تجارت کے حوالے سے یہ ضابطہ دیا گیا ہے کہ وہ فریقین کی باہمی رضامندی پر مبنی ہونی چاہئے ۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :’’ الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ‘‘ رضا کیلئے ضروری ہے کہ انسان مکمل طور پر فکری وجسمانی لحاظ سے آزاد ہو اسے کسی چیز کے سودے پر حسی یا معنوی طور پر مجبور نہ کیا جائے ۔ اکراہ اور مجبوری عمومی طور پر دو طرح سے ہوتی ہے ۔ ایک تو کسی انسان کو جسمانی طور پر کسی دباؤ کے تحت کوئی چیز خریدنے پر مجبور کیا جائے ۔ یہ صورت تو موجودہ تجارت میں تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دوسری قسم یہ کہ انسان کو مسمرائز (Mesmerize ) اور ہپناٹائز ( Hypnotize ) کرکے کوئی چیز خریدنے پر مجبور کیا جائے ۔ یعنی ہمیں ترغیب اور اکراہ میں فرق کرنا چاہئے محمد مبشر نذیر صاحب رقمطراز ہیں : ’’ ہمارے معاشرے میں پراڈکٹس کے فوائد بتلاکر ان کو خریدنے کی ترغیب پیدا کرنے کا کام بھی کیا جاتاہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ زیادہ زور اس بات پر ہے کہ لوگ اپنی عقل ودانش کے تحت تجزیہ کرکے نہیں بلکہ اپنے جذبات کے ہاتھوں ان پروڈکٹس کو خریدنے پر مجبور ہوجائیں ۔ اس مقصد کے لئے ہر برانڈ کو کسی مخصوص جذبے مثلاً دوستی ، عشق ومحبت ، مامتا ، اپنائیت ، ذہنی سکون ،
Flag Counter