Maktaba Wahhabi

348 - 534
فرمان باری تعالیٰ ہے : {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (90) إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰه وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ} [المائدة: 90، 91] ترجمہ:اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو ۔شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالٰی کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے ۔ سو اب بھی باز آجاؤ۔ تیسری قسم : انعامی مقابلوں کی تیسری قسم ایسے مقابلے جن میں کوئی معاوضہ یا انعام مقرر نہیں ہوتا ۔ اس قسم کے مقابلوں پر بھی اہل علم کا اجماع ہے کہ کوئی بھی ایسا مقابلہ جس پر معاوضہ وانعام نہ رکھا گیا ہو ، اور اس میں نفع ہو نقصان کا اندیشہ نہ ہو ، یا نقصان ِغالب نہ ہو تو ایسے مقابلے منعقد کرنا جائز ہے ۔[1] جیسے دوڑ کا مقابلہ ، کشتی رانی ، سوئمنگ وغیرہ کے مقابلے ہیں ۔[2] مقابلوں کی مندرجہ بالا انواع واقسام کے ذکر کے بعد ایک اختلافی صورت بچتی ہے اور وہ یہ کہ ان انعامی مقابلوں کے انعقاد کا کیا حکم ہے جن میں نص وارد نہیں ہے اور نہ ہی اس نص میں مذکور مفہوم کا اس پر اطلاق ہوتا ہے ، اور وہ معاوضہ اور انعام کی بنیاد پر منعقد کرائے جاتے ہیں ؟ کیا شرعی نقطہ نگاہ سے ایسے مقابلے منعقد کرائے جا سکتے ہیں یا نہیں ؟جیسا کہ آج کل کے تجارتی انعامی مقابلے ہیں اس مسئلہ میں فقہاء واہل علم کی دو آراء سامنے آتی ہیں : پہلی رائے : حنفیہ ،[3]مالکیہ [4]شافعیہ [5]حنابلہ[6]اور امام ابن حزم ظاھری [7]کا موقف ہے کہ ایسے
Flag Counter