Maktaba Wahhabi

350 - 534
جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ فریقِ ثانی کے دلائل : اس رائے کے حامل اہل علم کا کہنا ہے کہ شارع نے ایسے مقابلوں میں انعامات اور معاوضہ لگانے سے منع فرمایا ہے جس میں معاوضہ فریقین میں سے کوئی ایک ادا کرے ۔ کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ صورت قمار ومیسر کی صورت ہوجائے گی ۔ کیونکہ قمار کی تعریف یہ ہے کہ : ہر وہ معاملہ جس میں انسان داخل ہو اور پھر یا تونفع میں رہے یا نقصان میں‘‘ ۔اور انعامی رقم اگر فریقین میں سے کسی کی طرف سے ہوگی تو ان میں سے ایک نفع میں رہے گااور ایک نقصان میں۔ اس علّت کی بنا پر شریعت نے یہ معاملہ حرام قرار دیا ہے اور اس سے منع فرمادیا لیکن اگر یہ انعام کسی تیسرے فریق کی طرف سے ہوگا اس علّت کے زائل ہونے سے یہ معاملہ جائز ہوجائے گا کیونکہ یہ معاملہ حرام کردہ جوے کی صورت سے نکل جائےگا۔[1] ترجیح : مندرجہ بالا بحث اور فریقین کے دلائل سے جو بات صحیح ترین معلوم ہوتی ہے وہ جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ اس طرح کے مقابلوں میں انعامات اور عوض مقرر کرنا جائز نہیں ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:" لا سبق الا في خف ، أو نصل ، أو حافر" ۔[2] ’’مسابقت کے ساتھ مال لینا حلال نہیں مگر اونٹ ، یا گھوڑے دوڑانے میں اور تیر اندازی میں ‘‘ ۔ اس مسئلے کی قطعی دلیل ہے ۔ آپ کا یہ فرمانا :" لا سبق" یہ لفظ سیاق نفی میں نکرہ وارد ہوا ہے اور عربی قاعدہ کے مطابق عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔ ہاں جہاں چند معاملات میں اہل علم نے اسے جائز قرار دیا ہے وہ اس لئے کہ ان چیزوں کا تعلق جہاد اور جنگی تیاری سے ہے اور یہ چیزیں جنگی تیاری میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہیں اس لئے اسے جائز قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ جو بھی کھیل ہیں ان میں انعامات مقرر کرنا جائز نہیں چاہے ان کی صورت میسر اور قمار سے ملتی ہو یا نہیں کیونکہ حدیث اپنے باب میں قطعی دلیل ہے ۔ یہ جمہور اہل علم کی رائے ہے اور قریب تر اجماع ہے تمام مسالک ومشارب مذاھبِ فقہیہ اس پر متفق ہیں ۔
Flag Counter