Maktaba Wahhabi

410 - 534
اسی طرح اسلام کے نظام معیشت کی آخری ارتقائی منزل قرآن نے یوں بیان کی : { وَيَسْأَلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ } ( البقرة: 219 ) ’’یہ لوگ جن کے پاس سرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر پوچھتے ہیں کہ ہمیں کس حد تک خرچ کرنا ہوگا ۔آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تمہاری ضرورت سے جو کچھ زیادہ ہے،وہ تمہیں معاشرے پر خرچ کر دینا چاہیے‘‘۔ حکیم الامّت اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسی آیت کی طرف اشارہ کیا تھا : ؎ جو حرفِ قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اِس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں مصر کے بہت سے عالموں نےبھی یہ بات کہی ہے۔میں دانستہ طور پر ایک ثقہ عالم کا حوالہ اور کسی تجدد پسندکا حوالہ نہیں دیتا کہ آپ کے نزدیک ان کی ثقاہت محل نظر ہو۔میری مراد مولانا محمود حسن سے ہے۔إيضاح الأدلةمیں{هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيْعًا} (البقرة: 29 )کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جملہ اشیاء بہ دلیل فرمان واجب الاذعان} خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا {تمام بنی آدم کی مملوک معلوم ہوتی ہیں ،یعنی غرض الہیٰ تمام اشیاء کی پیدائش سے رفع حوائج جملہ ناس (انسان)ہے اور کوئی شے فی حدِّ ذاته کسی کی مملوک خاص نہیں ،بلکہ ہر شے اصل خلقت میں جملہ ناس میں مشترک ہے اور من وجهسب کی مملوک ہے ۔ ہاں بوجہ رفع نزاع وحصولِ انتفاع قبضہ کو علّت ملک مقرر کیا گیا اور جب تک کسی شے پر ایک شخص کا قبضہ تامہ مستقلہ باقی رہے ، اس وقت تک کوئی اور اس میں دست درازی نہیں کر سکتا۔ ہاں خود مالک و قابض کو چاہیے کہ اپنی حاجت سے زائد پر قبضہ نہ رکھے بلکہ اس کو اوروں کے حوالے کردے کیونکہ باعتباراصل اوروں کے حقوق اس کے ساتھ متعلق ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مال کثیر حاجت سے بالکل زائد جمع رکھنا بہتر نہ ہو ،اگر زکوٰۃ بھی ادا کردی جائے اور انبیاء علیہم السلام اور صلحاء رحمہم اللہ اس سے نہایت مجتنب رہے۔چناچہ احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہےبلکہ بعض صحابہ 
Flag Counter