Maktaba Wahhabi

424 - 534
نعرے اور مغرب سے مرعوب ہو کر چھوڑے گئے شوشے کو گہرائی میں جا کردیکھا جاتا ہے تو زبانِ بے اختیار سے بے ساختہ نکل جاتا ہے کہ :غربت تو ختم نہیں ہوگی مگر اس سے ساری قوم ہی غریب ہو جائے گی۔ زیر نظر مضمون میں عالم عرب کی ممتاز شخصیت علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی لاجواب تصنیف’’الأدلةُ علی بُطلان الإشتراکية ‘‘ سے چند مباحث کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔جن کے مطالعے کے بعد خوانندگانِ محترم پر اس باطل نظام کی حقیقت واضح ہو گی اور قارئین کرام اس نظام کی خرابیوں کو سمجھ لیں گے۔ان شا ءاللہ (1)نظامِ اشتراکیت کا وجود نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود میں تھا اور نہ ہی خلفاءراشدین کے زمانے میں اور نہ ہی ان کے بعد حکومت اسلامیہ میں اس کا تصور پایاجاتا تھا،اس کے بعد تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ کے خلفائے راشدین ،نیز ان کے بعد ائمہ مسلمین حق پر ہیں یا نظام اشتراکیت کے یہ دلدادہ حضرات ،اور دوسرا خیال تو ہے ہی باطل کیونکہ اس کے اعتراف سے یہ کہنا پڑیگا کہ (معاذاللہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ کے خلفاء راشدین نیز ان کے بعد ائمہ مسلمین گمراہی پر تھے اور انہوں نے اپنی رعایا پہ ظلم و ستم کئے حتیٰ کہ احباب ِاشتراکیت نے تیرہ سو سال بعد ۔۔۔لوگوں کی صحیح راہ کی طرف رہنمائی کی اور ایسی راہ جس کا نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ تھا،نہ ہی آپ کے خلفائے راشدین کو اور نہ ان کے بعد ائمہ مسلمین کو ۔ (2) فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’بلاشبہ میں ایک انسان ہوں ،تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو ،ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ چرب زبان ہوں اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کردوں تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی (فریق مخالف)کا کوئی حق دلادوں اسے چاہئے کہ وہ اسے نہ لے کیونکہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں۔[1] اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ عوام الناس کے لئے یہ قطعی طور پر جائز نہیں ہے کہ اس بنیاد پہ کسی کے مال پہ قبضہ کریں کہ حکومت نے انہیں اس کی اجازت دی ہے ۔ بلکہ عوام کو چاہئے کہ ایسے ہر
Flag Counter