Maktaba Wahhabi

480 - 534
کہ:سونے اور چاندی سے فلوس کی بیع میں ادھار کسی طرح بھی جائز نہیں اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائیں تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو بھی اُدھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا۔ پھر میں نے کہا کہ: آپ کیا کہتے ہیں کہ اگر میں فلوس کے بدلےسونے یا چاندی کی انگوٹھی یا سونے کی ڈھلی خریدوں اور اسے قبضے میں لینے سے پہلے ہی ہم الگ ہوجائیں توکیا امام مالک کے نزدیک یہ جائز ہوگا؟تو فرمایا نہیں یہ امام مالک کے ہاں جائز نہیں ہوگا کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ:ایک فلس کے بدلے دو فلس کی خرید وفروخت جائزنہیں اور سونے چاندی اور دینارکی فلوس کے بدلے ادھار خرید وفروخت جائز نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک فلوس میں بھی اسی طرح سود جاری ہوتا ہے جیسا سونے اور چاندی میں سود لاگو ہوتا ہے، کیونکہ لوگوں کا لین دین اس سے ہوچلا ہے اور اس کی حیثیت اب نقد کرنسی کی ہوگئی ہے بلکہ امام مالک تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر لوگ چمڑے کو کرنسی کے طور پر استعمال کرنے لگیں توان کا حکم بھی سونے چاندی جیسا ہی ہوگا۔ اور یہ آج کے کرنسی نوٹوں کی طرح ہی ہےجس کا امام مالک نے ایک مفروضے کے طور پر ذکر کیا ہے۔ سبحان اللہ :کیا ہی پاک ہے وہ ذات جس نے امام مالک کو یہ مثال دینے کی توفیق عطا فرمائی! اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ صحیح یہ ہے کہ دراہم اور دینار میں علتِ ربا ان کا ذریعہ تبادلہ اور قیمتوں کے تعین کا پیمانہ ہونا ہے نہ کہ وزن ہونا ان کی علت ربا ہے ۔ (یہی جمہور علماء کا موقف ہے)۔[1] علامہ ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام ابو حنیفہ اورامام احمد بن حنبل کے ایک قول کے مطابق درہم ودینار میں علت ربا انکا وزن ہے،جبکہ امام مالک،شافعی اور احمد بن حنبل کے دوسرے قول کے مطابق درہم ودینار میں علتِ ربا انکا قیمتوں کا
Flag Counter