Maktaba Wahhabi

53 - 534
رومن ایمپائر ، دور غلامی ، جاگیرداری اور پھر آخر میں نظام سرمایہ داری کا تماشہ اور پھر اشتراکی کوچہ گردوں کی آشفتہ سری ،تمام کی تمام شکست آرزو کے عنوانات ہیں ان تمام کوششوں کے باوجود یہی نہیں کہ حالت نہیں بدلی بلکہ کیفیت کچھ یوں رہی کہ ؎ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی حقیقت یہ ہے کہ تمام نظامہائے معیشت الگ الگ اور متضاد نام کے حامل ہونے کے باوصف اصل میں سارے ایک ہیں ۔ ایک ہی تصویر کےدو مختلف رخ اور زاویے ہیں اور نام اس کا خود رائی ہے ۔ انسان نے معیشت کو اس کے اصل مقام و مرتبہ سے بڑھا کر ایسا غلو کیا ہے کہ اپنا مرتبہ اور مقصد فراموش کر بیٹھا ۔ نتیجہ وہی ہوا جو ذریعہ کو مقصد بنانے کا ہوتا ہے ۔انسان صرف پیٹ کا نام نہیں بلکہ اس میں دل و دماغ بھی ہے اور اس کے دیگر اعضاء بھی ہیں ،اگر کوئی شخص دل و دماغ کے بجائے پیٹ سے سوچنا شروع کردے تو اس کی جو کیفیت ہوسکتی ہے وہ نظامِ معیشت کو مرکز و محور بنانے سے پوری انسانیت کی ہوچکی ہے ۔ ایک بھوکے کو اجرام فلکی بھی روٹیاں نظر آسکتی ہیں لیکن اس سے نظام شمسی میں خلل آسکتا ہے اور نہ علم فلکیات کی اہمیت کم ہوسکتی ہے ۔ انسان تنگ نظر اور جذباتی مخلوق ہے اس لئے اسکی سب سے بڑی غلطی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کےلئے اپنے اور اس کائنات کے خالق سے رجوع کرنے کے بجائے خود ہی ان کا حل کرنے بیٹھ جائے۔عام زندگی میں () خطرناک ہے تو اجتماعی زندگی میں اس کے اثرات کتنے مہلک ہوسکتے ہیں دنیا کی موجودہ صورت حال اس کا ثبوت ہے ایسی صورت میں ایک انسان کو اس سے اچھا مشورہ نہیں دیا جاسکتا کہ ؎ دست ہرنا اہل بیمارت کند سوئے مادرآ کہ تیمارت کند انسانیت پر اس سے بڑا احسان نہیں ہوسکتا کہ انسانی معاشرے کو اجتماعی طور پر اپنے اور اس سارے جہان کے خالق و مالک کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کی جائے ۔ انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام اسی لئے انسانیت کے محسن ہیں عليهم الصلوات و التسليمات اور پیغمبر آخر و اعظم انسانیت کے محسن اعظم ہیں عليه أفضل الصلاة و أزکی التسليمات
Flag Counter