Maktaba Wahhabi

97 - 534
اختلاف نہیں جیسے مشرکین کے معبودانِ باطلہ کو اس وجہ سے برا نہ کہنا کہ کہیں وہ جواباً اللہ تعالیٰ پر معاذ اللہ سب وشتم نہ کردیں، اسی طرح سورج طلوع و غروب ہوتےوقت نماز پڑھنے کی ممانعت وغیرہ۔ اختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ جس کا ’’ذریعہ فساد‘‘ ہونا اہلِ علم و مجتھد کے حکم سے ثابت ہو، نہ کہ کتاب و سنت سے، اوراس ذریعہ کا ذریعہ فساد ہونا قطعی طور پر بھی نہ ہو اور نہ ہی اغلبیت کے طور پر ، تو کیا ایسے ذریعہ و وسیلہ کو حکماً بند کیا جائے گا ،روکا جائیگا یانہیں ؟ واللہ اعلم شرعی علتوں و حکمتوں کو سامنے رکھتے ہوئے جن اہلِ علم نے انہیں سدّ الذرائع میں شامل کیا ہے یعنی ایسے ذرائع و وسائل کو روکنے اور ان کے ارتکاب سے منع کرنے کو راجح قرار دیا ہے ،اُن کا قول ہی اس مسئلہ میں زیادہ صحیح اور احتیاط کے قریب ہے جیساکہ امام ابنِ قیّم رحمہ اللہ نےاپنی مایہ ناز تصنیف ’’اعلام المؤقعین ‘‘ میں ۹۹ ننانوے دلائل ذکر کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اسباب ، وسائل و ذرائع جو حرام کام اور فساد کی طرف لے جانے کا بنیادی ذریعہ بنیں ، ہر حال میں اُن کا سدِّ باب کیا جائیگا اور ان کے استعمال سے روکا جائیگا خواہ اُن وسائل کو استعمال کرنے والا اُن کے ذریعہ فساد میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے یا نہ کرے۔ قاعدہ سدّ الذرائع کے اعتبار کی شرائط قاعدہ سدّ الذرائع کا اعتبار دو اہم شرطوں پر موقوف ہے : (1) جس جائزعمل کاذریعہ فساد بننے کے باعث انسداد مقصود ہو وہ غالب اوقات میں فساد کا ذریعہ بنے، ناکہ کبھی کبھار یا نادر اوقات میں۔ اور اگر وہ نادر اوقات میں ذریعہ فساد بنے تو اُ س ذریعہ(عمل) سے روکا نہیں جائے گا۔ (2) اُس جائز عمل سے( ذریعہ فساد بننے کے باعث) مرتب ہونے والے مفاسد(نقصانات) اُ س کے مصالح (فوائد)کے مساوی (برابر) ہوں یا اُس سے زیادہ ہوں ۔ اور اگر اُ س کے مفاسد اُس کے مصالح سے کم ہوں تو اُ س ذریعہ(عمل) سے روکا نہیں جائے گا۔
Flag Counter