Maktaba Wahhabi

482 - 534
دوم: کرنسی نوٹ سونے چاندی کی طرح مستقل زر ہے۔ اسی طرح کاغذی نوٹ جاری کردہ حکومتوں کے اعتبار سے الگ الگ جنس ہیں۔ یعنی سعودی ریال ایک جنس ہے ، امریکی ڈالر ایک الگ جنس ہے۔ اس طرح ہر ملک کی کرنسی بذات خود مستقل جنس ہے ، لہذا اس میں ادھار اور فضل دونوں صورتوں میں اس پر سود لاگو ہوگا۔ جیسے سونے اور چاندی اور زر کی دیگر اقسام وغیرہ پرلاگو ہوتا ہے۔ کویت فائنانس ہاؤس نے اپنے پہلے فقہی سیمینار میں جو سفارشات اور فتاویٰ پیش کئے وہ یہ کہ : مجمع فقہ اسلامی کے سابقہ فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کہ کرنسی نوٹ خریدوفروخت اور لین دین میں سونے وچاندی کے قائم مقام ہیں،انہی کے ذریعے اموال ووسائل کا تخمینہ لگایا جاتا ہے اور انہی کےذریعے تمام ادائیگیاں کی جاتی ہیں ،اسی لئے ان پر سونے چاندی کے تمام احکام لاگو ہوں گےاور خاص طوران کا لین دین نقد ہو، نا کہ ادھار۔ ہر کرنسی بذات خود ایک دوسرے سے مختلف جنس ہے،تو کسی بھی معاہدے کی ابتداء یا انتہاء میں مقداری سود [ربا الفضل] جائز نہ ہوگایعنی سو روپے کے بدلے سو روپے ہی خریدےجاسکیں گے ہاں البتہ اگر ایک کرنسی کے بدلے دوسری خریدی جائے مثلاًروپے کے بدلے ڈالر تو پھرصرف نقد سودے کا اشتراط کیا جائے گا۔ کرنسی نوٹوں کے ذریعے سونے کی فروخت جائز نہیں سوائے اسکے کہ سودا ہاتھوں ہاتھ ہویعنی نقد ہو۔ "ابحاث هيئة کبار العلماء" میں مذکور ہے کہ:  سونے اور چاندی میں حرمتِ سود کی حکمت صرف ان دونوں ہی پر مقصور نہیں ہے بلکہ یہ ان تمام چیزوں پرلازم آتی ہے جنہیں بطور قیمت استعمال کیا جا ئے ،مثلاً فلوس ،سکےّ یا کرنسی نوٹ وغیرہ۔  سونے اور چاندی کے سودی ہونے کی علت ان کا پیمانہ قیمت ہونا ہے۔ اور یہی امام ابو حنیفہ امام مالک اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی قول ہے ،امام احمد کے شاگرد ابوبکر کہتے ہیں امام سےشاگردوں کی کثیر تعداد نے یہی روایت کیا ہےاور یہی رائے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان
Flag Counter