Maktaba Wahhabi

101 - 306
تعلق رکھتاہے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔مذکورہ دونوں شرطوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مدنظر رکھنا چاہیے: ’’جب تمھیں کوئی ایسا نوجوان نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہوتو اس سے(اپنی بیٹی،بہن) کی شادی کردو،اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد پھیلے گا۔‘‘[1] اگر ان اوصاف کے ساتھ ساتھ لڑکی اور اور لڑکے میں ’’کفو ‘‘ (برابری) بھی ہوتو یہ بہت سی بہتر ہے۔(ابن العثیمین) نوٹ ٭: میں مترجم عرض کررہا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے لیے لڑکے کے انتخاب کی دوشرطیں ذکر کی ہیں: 1۔دینداری۔ 2۔حسن اخلاق۔ کیونکہ اگر انسان دیندار نہ ہوتو وہ لڑکی کو بھی بے دینی کی اندھی غار میں دھکیل دے گا۔جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا نہ کرتا ہو وہ بیوی کے حقوق کیسے پورے کرے گا اور اس کا کیسے خیال رکھے گا؟ایسا آدمی اولاد کے لیے بھی باعث ضرر اور ان کی بے راہ روی میں معاون ہوگا۔ اور اگر وہ بداخلاق ہوگا تو اس کی بیوی ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گی۔ایسا گھر جہنم کدہ بن کر رہ جائے گا۔وہ بیوی کو مارنے پیٹنے اور اس پرتشدد کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا،اس کی بداخلاقی کا اثر بچوں کے کردار پر بھی پڑے گا۔دیندار اور بااخلاق آدمی تحمل، بردباری اور عقلمندی سے معاملات کو کنٹرول کرے گا۔وہ اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھتے ہوئے جہاں اپنے بیوی بچوں کے حقوق پورے کرے گا،وہاں بیوی کے ساتھ حسن سلوک اخلاق سے پیش آئے گا اور اسے گھر کی مالکہ کادرجہ دےگا اور تمام امور احسن طریقہ سے نمٹائے گا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین انتہائی حکمت اور دانائی پر مبنی ہوتے ہیں۔ان دو شروط کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ دیندار اور بااخلاق انسان سے بڑھ کر کوئی مرد شادی کے
Flag Counter