Maktaba Wahhabi

162 - 306
چاہیے یا اپنی ماں کے پاس اور کیا میری بیوی کایہ عمل صحیح ہے؟ جواب۔ہم آپ کی بیوی کو نصیحت کرنا چاہیں گے کہ وہ آپ کی اطاعت کرے اور آپ کو ایسی مشقت میں نہ ڈالے جس کو برداشت کرنے کی طاقت آپ میں نہیں ہے۔آپ کی بیوی کا عمل بہت سے خاندانی تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔مذکورہ صورتحال میں آپ بچے کو اپنے پاس رکھنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔بچے کا ہسپتال اور ڈاکٹر کی نگرانی سے دور رہنا بھی صحیح نہیں ہے۔(واللہ اعلم) (عبداللہ بن جبرین) باپ کا بیٹی کو اپنے گھرمیں روکنا سوال۔جناب شیخ صاحب!میں نے کچھ عرصہ پہلے شادی کی،میری والدہ جو کہ بوڑھی ہے وہ میرے ساتھ میرے گھر میں رہتی ہے۔میری شادی کو تین ماہ کاعرصہ ہوا تھا کہ میری بیوی کو میرا سسر یہ کہہ کر اپنے گھر لے گیا کہ وہ اپنی ماں کو ملنے کے بعد واپس آجائےگی۔پھر اس نے اپنی بیٹی کو یہ کہہ کر اپنے گھر روک لیا کہ وہ میری ماں کے ساتھ نہیں رہے گی۔اسے روکے ہوئے اٹھارہ (18) ماہ کا عرصہ گزر چکاہے،میں جب بھی رابطہ کرتا ہوں اور بعض سنجیدہ لوگوں کو بھیجتا ہوں تو میرے سسر کی طرف سے جواب آتا ہے کہ ماں کو چھوڑدو،اُسے علیحدہ رکھو یا پھر میرے گھر میں میری بیٹی کے پاس آجاؤ۔ محترم شیخ صاحب!میری بیوی نے مجھے ان تینوں میں کبھی کوئی ایسی بات یا اعتراض نہیں کیا اور میں نے بھی اپنی بیوی کو کوئی پریشانی یادکھ نہیں دیا۔کیا میرے سسر کایہ مطالبہ صحیح ہے؟شرعی رہنمائی بیان کرکے عنداللہ ماجور ہوں۔ جواب۔آپ کی بیوی پر لازم ہے کہ وہ آپ کے گھر میں ٹھہرے۔نکاح کا مطلب ہی یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کے گھر میں ٹھہرے۔آپ کی بیوی آپ کے پاس تین مہینے رہی،اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تو اُس کے والد کے لیے کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو بلاوجہ آپ سے دور رکھے اور خاوند کے لیے قطعاً ضروری نہیں کہ وہ اپنے سسر کے گھر میں رہے۔بیوی کو خاوند کے گھر میں رہنا لازم ہے،آپ کے سسر کا فعل غیر شرعی ہے۔(علماء کمیٹی)
Flag Counter