Maktaba Wahhabi

77 - 306
لڑکی اب بیوگی کے ایام ریاض میں گزارنے لگی۔پھر ایک دن اسے ایک سنجیدہ شخص کی طرف سے نکاح کا پیغام موصول ہوا۔یہ شخص بھی ریاض میں مقیم تھا جبکہ اصلاً یمنی باشندہ ہے۔آپ سے سوال یہ ہے کہ براہ کرم بتائیے کہ یہ عورت اپنے نکاح کے لیے کس کو وکیل بنائے گی؟اسے اپنے باپ شریک بھائیوں کی سرپرستی میں جانا ہوگا، یا اس کے بھائی ریاض میں حاضر ہوں گے جبکہ وہ یمن میں ہیں، اس صورتحال میں کیا کرنا ہو گا؟ جواب۔سوال میں جو صورتحال مذکور ہے اس کے پیش نظر ہم کہنا چاہیں گے کہ اگر آسانی کے ساتھ اس کے بھائی ریاض آسکتے ہیں تو بہت بہتر ورنہ ان بھائیوں کو چاہیے کہ وہ ریاض میں کس جاننے والے کو وکیل مقرر کردیں۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو علماء کے ایک قول کے مطابق دور کا کوئی بھی ولی اس کی شادی کروا سکتا ہے جو اس کے پاس آسانی سے پہنچ سکتا ہو۔اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو اور اس کے اولیاء کا وہاں پہنچنا کسی وجہ سے انتہائی مشکل ہو اور ان کے وہاں حاضر ہونے میں زبردست مشقت ہو تو اس لڑکی کا ولی حاکم ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس کا کوئی ولی نہ ہو تو حاکم اس کا ولی ہے‘‘ اگر کسی بھی ولی کا اس عورت کے پاس پہنچنا انتہائی مشقت کا باعث ہے تو یہ اس عورت کے حکم میں ہوگی جس کا کوئی ولی نہیں ہے اور جس کا کوئی ولی نہ ہو تو اس کا ولی حاکم ہو گا۔ (محمد بن ابراہیم آل شیخ) اگر عورت کا ولی موجودنہ ہو تو اس کا نکاح کیسے ہو گا؟ سوال۔ ایک عورت کو کسی آدمی نے نکاح کا پیغام بھیجا، یہ عورت جس علاقہ میں رہائش پذیر ہے وہاں اس کا کوئی ولی موجود نہیں۔اس عورت کے دو مرد رشتہ دار جو اس کے ولی بن سکتے ہیں۔وہ یمن میں مقیم ہیں اور ان کا نکاح میں حاضر ہونا انتہائی مشکل ہے۔یہ عورت مناسب رشتہ مل جانے کی وجہ سے نکاح کی خواہا ں ہے تاکہ یہ اچھا موقع اس کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔اس صورت میں آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟ جواب۔ جس کسی عورت کا ولی موجود نہ ہو یا پھر ولی تو ہو مگر اس کا وہاں پہنچنا محال ہو تو کوئی دور کا رشتہ دار اس کا ولی بن سکتا ہے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ایسی عورت کا ولی حاکم ہو گا۔ عدالت کا
Flag Counter