Maktaba Wahhabi

310 - 306
بیٹیاں دوتہائی کی حقدار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں اور وہ دو سے زائد ہوں تو ان کا ترکہ سے دوتہائی حصہ ہے۔‘‘[1] بیٹیوں کو ان کا مقررہ حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ مرحوم کا بھائی عصبہ ہونے کی حیثیت سے لے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’ حقداروں کو مقررہ حصص دینے کےبعد جو باقی بچے وہ میت کے قریبی رشتہ دار کے لیے ہے۔‘‘[2] سہولت کے پیش نظر مکان کی مالیت کو تین حصوں میں تقسیم کرلیا جائے،ان میں سے دو حصے چھ بیٹیوں کو اور ایک حصہ بھائی کو دے دیا جائے،صورت مسئولہ اس طرح ہوگی: میت:3/18 چھ بیٹیاں : 2/12 ایک بھائی :1/6 نوٹ: اگرحصہ داروں کے لیے حصص پوری طرح تقسیم نہ ہوں تو حصوں کی تعداد کو بڑھادیاجاتا ہے،جیسا کہ مذکورہ مسئلہ میں تین حصوں کو بڑھا کراٹھارہ کرلیا گیا ہے ان میں سے دو،دوحصے فی بیٹی اور چھ حصے اس کے بھائی کو دئیے جائیں۔ (واللہ اعلم) (ابومحمد حافظ عبدالستار الحماد) ناانصافی پر مبنی وصیت نامہ سوال۔اگروالدین اپنی اولاد کو کسی جائیداد کے متعلق وصیت کر جائیں اور اس میں بے انصافی اور حق تلفی کی گئی ہو،اولاد نافرمانی سے بچنے کے لیے اسے قبول کرلے تو کیا جن بچوں پر زیادتی ہوئی ہے وہ بذریعہ عدالت یا پنچائیت اس کی تلافی کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔ جواب۔ہمارے ہاں عام طور پر وصیت کے متعلق افراط وتفریط سے کام لیا جاتا ہے۔اس سلسلہ میں بیشتر اوقات یہ کوتاہی دیکھنے میں آتی ہے کہ جو چیزیں وصیت کے قابل ہوتی ہیں انہیں نظر انداز کردیاجاتا ہے،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: ’’ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں کہ وہ کسی قابل وصیت کام کے متعلق
Flag Counter