Maktaba Wahhabi

91 - 306
غیر مسلمہ سے شادی غیر مسلمہ عورت سے ضرورت کی بنا پر نکاح کرنے کا حکم سوال۔میرے ایک دوست نے روزی کی تلاش میں بعض یورپی ممالک کا سفر کیا۔صورتحال یہ ہے کہ وہ اس وقت جس ملک میں ہے وہاں ملازمت اور رہائش شادی کے بعدہی ممکن ہے۔اگر وہ وہاں کی نیشنلٹی ہولڈر عورت سے نکاح کرلیتا ہے،چاہے وہ عورت اہل کتاب سے ہو یا نہ ہو تو اس کے معاملات پایہ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔کیا ایسی شادی ضرورت کی بناء پر جائز ہے یا نہیں؟یاد رہے کہ اس کے بچے اور بیوی اس کے آبائی وطن میں موجود ہیں جبکہ کچھ نوجوان غیر شادی شدہ بھی اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ایسی شادیوں کے متعلق آپ کیافرماتے ہیں؟ جواب۔اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں کہ غیر مسلمہ عورت کے ساتھ نکاح بے شمار خطرات کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے،عام طور پر ایسے نوجوان دین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ان کے نزدیک کفر پسندیدہ جبکہ اسلام غیر پسندیدہ دین کی حیثیت اختیار کرلیتاہے۔دوسراخطرہ یہ ہے کہ ایسی عورت سے پیدا ہونے والی اُس مسلمان کی اولاد بھی اپنی ماں کے دین میں ہی داخل ہونا پسند کرے گی کیونکہ وہ ایسے ہی ملک میں مقیم ہے،اس کے باپ کو اس بات کا اختیار نہیں ہوگا کہ وہ ان کی دین کی طرف رہنمائی کرسکے۔لیکن اگر یہ نوجوان ایسی لڑکی کے ساتھ شادی کے لیے مجبور ہومثلاً یہ کہ اس کے لیے اور کوئی جائے پناہ نہ ہو اور نہ ہی کوئی اور ملک داخلہ کی اجازت دے درہا ہو یا ہر ملک اسے دھتکار رہا ہے اور صرف یہ کافر ملک ہی اس کے لیے پناہ گاہ ہے اور وہاں کی حکومت اسے اس بات کا پابند بنائے اور اس پر یہ شرط عائد کرے کہ وہ ان کے ملک میں شادی کرے ورنہ اس کا کاروبار وغیرہ سیل کردیاجائے گا تو اس حالت میں ہم کہنا چاہیں گے کہ صرف اہل کتاب کی عورت کے ساتھ شادی جائز ہوگی۔ عام کافر ہ عورتوں سے نکاح جائز نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ ایسے ملک میں رہنا کفر کے ساتھ تعاون ہے اور خطرات سے خالی نہیں ہے۔(عبداللہ جبرین)
Flag Counter